امریکا نے ڈرون حملوں سے متعلق الزام ردّ کر دیا
23 اکتوبر 2013ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے منگل کو مختلف رپورٹیں جاری کیں جن مییں پاکستان اور یمن میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کی تفصیلات بیان کی گئیں۔
دونوں گروپوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈروں حملوں کا جائزہ لیا ہے، جو بین الاقوامی قوانین کے خلاف دکھائی دیتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ دو برس کے دوران ایسے حملوں کے دوران ہونے والی بعض ہلاکتوں کو جنگی جرائم کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
اس کے ردِ عمل میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا کہنا ہے: ’’ہم ان رپورٹوں کا محتاط جائزہ لے رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’جہاں تک ان رپورٹوں میں کیے گئے اس دعوے کا تعلق ہے کہ امریکا نے بین الاقوامی قانون کے خلاف کارروائیاں کیں تو ہم اسے سختی سے مسترد کرتے ہیں۔‘‘
جے کارنی نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کو قانون کے مطابق رکھنے کے لیے غیر معمولی احتیاط سے کام لیا جاتا ہے اور واشنگٹن انتظامیہ بارہا اس بات پر زور دے چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف ڈرون طیاروں کا استعمال ایک ایسی کارروائی ہے، جس کے نتیجے میں معصوم زندگیوں کے ضیاع کا کم سے کم خطرہ ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بھی ان رپورٹوں پر ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔ اس کے مطابق ان رپورٹوں میں بیان کی گئی ہلاکتوں کی تعداد اور اس حوالے سے کیے گئے امریکی تجزیوں میں بہت فرق ہے۔
محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان میری ہیرف نے کہا ہے کہ اس حوالے سے واشنگٹن انتظامیہ کے اعدادو شمار زیادہ درست ہیں۔ تاہم انہوں نے اعدادو شمار نہیں بتائے جس کی وجہ ذرائع کا تحفظ بتائی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اِن دِنوں امریکا کے دورے پر ہیں۔ بدھ کو وہ اپنے اس دورے کے آخری روز وائٹ ہاؤس میں صدر باراک اوباما سے ملاقات کریں گے۔ پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کو اس ملاقات کا اہم موضوع بتایا جا رہا ہے۔
اس سے قبل منگل کو ایک بیان میں نواز شریف نے امریکا پر ڈرون حملے روکنے کے لیے زور دیا۔ انہوں نے ان حملوں کو دونوں ملکوں کے تعلقات کی راہ میں حائل ’ایک بڑی خرابی‘ قرار دیا۔
یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا: ’’لہٰذا میں اس بات کی ضرورت پر زور دوں گا کا ڈرون حملے روک دیے جائیں۔‘‘