امریکا نے کوئی ایکشن لیا تو ردعمل ہو گا، پاکستانی موقف
صائمہ حیدر
4 جنوری 2018
پاکستانی فوج کے مطابق امریکا کی جانب سے اگر پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی یا کوئی قدم اٹھایا گیا، تو اس کا ردعمل بھی ہو گا۔ یہ بات امریکی صدر ٹرمپ کی پاکستان سے متعلق بہت تنقیدی ٹویٹ کے تناظر میں کہی گئی ہے۔
اشتہار
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد واشنگٹن کے ساتھ اپنا تعاون برقرار رکھنا چاہتا ہے تاہم قومی مفادات اور وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
پاکستانی فوج کے ترجمان نے مزید کہا کہ امریکا کی جانب سے اگر پاکستان کے خلاف کوئی ’ایکشن‘ کیا گیا، تو اس کا ایک ردعمل بھی ہو گام جو پاکستانی عوام کی خواہشات کے مطابق ہو گا۔
میجر جنرل غفور نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان اور امریکا اتحادی ہیں اور ’اتحادی آپس میں لڑتے نہیں‘۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کتنا مؤثر معاون اور مددگار رہا ہے۔
آئی ایس پی آر کے سربراہ کے بقول پاکستانی فوج نے طالبان کے اتحادی دھڑے حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی کارروائیاں کی ہیں، جن کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ ہی سامنے آئیں گے۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے سال کے پہلے روز پاکستان سے متعلق اپنی ایک بہت ہی تنقیدی ٹویٹ میں کہا تھا کہ امریکا کو سالہا سال تک پاکستان سے اربوں ڈالر کی امداد کے عوض محض ’جھوٹ اور دھوکا‘ ہی ملا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ٹویٹ میں ایک بار پھر پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ پاکستان کے لیے امداد بند بھی کی جا سکتی ہے۔
پاکستان اور امریکا کے مابین اس حالیہ تناؤ کے تناظر میں ہی پاکستانی وزیر دفاع خرم دستگیر نے آج جمعرات چار جنوری کو اپنے ایک بیان میں کہا، ’’اس بارے میں کسی کو بھی کسی قسم کا کوئی خوف یا شبہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔‘‘
خرم دستگیر نے مزید کہا کہ پاکستان کو اس حوالے سے ٹھنڈے دماغ سے اپنی حکمت عملی تیار کرنا ہو گی، اور اس کے لیے امریکا میں پائی جانے والی دونوں طرح کی رائے کا بغور جائزہ بھی لینا ہو گا۔
امریکا کی جانب سے گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان پر الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا قریبی اتحادی ہے، تاہم دوسری طرف وہ پس پردہ افغانستان میں مقامی اور غیرملکی دستوں پر حملوں میں ملوث عسکری گروہوں کی معاونت بھی کرتا ہے۔
پاکستان تاہم ان الزامات کو سرے سے مسترد کرتا آیا ہے اور اس کا شروع سے ہی موقف یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک خود اس کے اپنے ہزارہا فوجی اور عام شہری بھی مارے جا چکے ہیں اور پاکستانی معیشت کو بھی اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
پاکستان: گزشتہ ایک عشرے کے بدترین دہشت گردانہ حملے
پاکستان نے 2001ء میں امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ میں شمولیت اختیار کی تھی اور تب سے ہی اسے عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے گزشتہ ایک عشرے کے خونریز ترین بم دھماکوں پر ایک نظر !
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/A. Butt
2007ء: سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ
اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک سو انتالیس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا، جب بے نظیر اپنی آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کر کے پہلی مرتبہ واپس پاکستان پہنچی تھیں اور ایک جلوس میں شریک تھیں۔ بے نظیر بھٹو کو اُسی برس ستائیس دسمبر کو ایک خود کش حملے سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Khawer
2008ء: واہ کینٹ میں حملہ
اکیس اگست سن دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد کے نواح میں واقع واہ کینٹ میں اسلحہ کی ایک فیکٹری (پی او ایف) میں ہوئے دوہرے خود کش بم دھماکے کے باعث چونسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ یہ پاکستان کی تاریخی میں کسی فوجی تنصیب پر بدترین حملہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2008ء: اسلام آباد کے لگژری ہوٹل پر حملہ
بیس ستمبر کو اسلام آباد کے فائیو اسٹار میریٹ ہوٹل پر حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ساٹھ افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔ اس حملے میں دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ غیرملکی بھی شامل تھے جبکہ زخمی خیر ملکیوں کی تعداد پندرہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Matthys
2009ء: پشاور میں حملہ
اٹھائیس اکتوبر سن دو ہزار نو کو پشاور کے ایک مرکزی بازار میں ہوئے ایک کار بم حملے کے نتیجے میں ایک سو پچیس جانیں ضائع ہو گئی تھیں جبکہ زخمیوں کی تعداد دو سو سے بھی زائد تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور القاعدہ دونوں ہی نے قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A Majeed
2009ء: لاہور نشانے پر
دسمبر میں پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کی مون مارکیٹ میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں چھیاسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔
تصویر: DW/T.Shahzad
2010ء: والی بال میچ کے دوران حملہ
سن دو ہزار دس میں پاکستان کے لیے یکم جنوری کا دن ہی اداسی لے کر آیا تھا۔ اس دن بنوں ضلع میں اس وقت خود کش حملہ کیا گیا تھا، جب لوگ والی بال کا ایک میچ دیکھنے ایک گراؤنڈ میں جمع تھے۔ اس کارروائی میں ایک سو ایک افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Azam
2010ء: احمدیوں پر حملہ
اٹھائیس مئی کے دن لاہور میں اقلیتی احمدیوں کی دو مساجد پر حملہ کیا گیا، جس میں بیاسی افراد ہلاک ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
تصویر: Getty Images/N. Ijaz
2010ء: ایک قبائلی مارکیٹ میں حملہ
تین ستمبر سن دو ہزار دس کو قبائلی علاقے مومند میں ایک مصروف مارکیٹ کو ایک خود کش بمبار نے نشانہ بنایا تھا، جس میں ایک سو پانچ افراد لقمہٴ اجل بنے۔ بعد ازاں پانچ نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک خود کش حملہ ہوا، جس میں اڑسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس مرتبہ انتہا پسندوں نے نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
2011ء: ڈیرہ غازی خان اور چارسدہ میں تباہی
تین اپریل سن دو ہزار گیارہ کو دو خود کش حملہ آوروں نے ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک صوفی مزار کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پچاس افراد مارے گئے۔ اس برس تیرہ مئی کو بھی دو خود کش بمباروں نے چارسدہ میں واقع پولیس کی ایک تربیت گاہ کو ہدف بنایا، اس خونریز کارروائی کی وجہ سے اٹھانوے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Ahmed
2013ء: اقلیت پر حملے
سولہ فروری دو ہزار تیرہ کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ایک بم دھماکا کیا گیا، جس میں 89 افراد مارے گئے۔ اس حملے میں بھی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا تھا۔ بائیس ستمبر کو پشاور میں اس وقت بیاسی افراد مارے گئے تھے، جب دو خود کش بمباروں نے شہر میں واقع ایک چرچ کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2014ء: اسکول پر بہیمانہ حملہ
سولہ دسمبر کا دن پاکستان میں قہر کا باعث بن گیا تھا۔ اس دن شدت پسندوں نے پشاور کے ایک اسکول پر حملہ کرتے ہوئے ایک سو چوّن افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر بچے ہی تھے۔ اسی برس دو نومبر سن دو ہزار چودہ کو پاکستان اور بھارت کے مابین واقع مرکزی سرحدی گزر گاہ کے قریب ہی ایک خود کش حملہ ہوا تھا، جس میں پچپن افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed
2015ء: شیعہ کمیونٹی ایک مرتبہ پھر نشانہ
تیس جنوری کو صوبہٴ سندھ میں شکارپور کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا، جس میں باسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ تیرہ مئی کو شدت پسندوں نے کراچی میں شیعہ اقلیت کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا اور 45 افراد کو ہلاک کر دیا۔ پاکستان میں یہ پہلا حملہ تھا، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
2016ء: لاہور پارک بم دھماکا
ستائیس مارچ کو لاہور میں واقع بچوں کے ایک پارک پر حملہ کیا گیا، جس میں 75 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے میں بھی مسیحی اقلیت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
2016ء: کوئٹہ ہسپتال دھماکا
آٹھ اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش حملہ کیا گیا، جس میں کم ازکم ستر افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش کے علاوہ طالبان نے بھی قبول کی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
کوئٹہ میں پولیس اکیڈمی پر حملہ
کوئٹہ میں دہشت گردی کی ایک کارروائی کے نتیجے میں کم ازکم انسٹھ افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ فوج کے مطابق اس مرتبہ نقاب پوش خود کش حملہ آوروں نے پولیس کی ایک تربیتی اکیڈمی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے میں زندہ بچ جانے والے ایک زیر تربیت پولیس اہلکار کا کہنا ہے،’’جنگجو سیدھے ہماری بیرک میں پہنچے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ہم چیختے چلاتے بیرک میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔‘‘