امریکی اٹارنی جنرل نے سزائے موت پر عمل درآمد پر عارضی طور پر روک لگانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کی سابقہ پالیسیوں کے بالکل برعکس ہے۔
اشتہار
امریکی اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے یکم جولائی جمعرات کو وفاقی سطح پر سزائے موت پر عمل درآمد کرنے کے لیے وقت مقرر کرنے پر عارضی طور پر روک لگانے کا حکم دیا ہے۔
اس حکم سے متعلق اٹارنی جنرل کا کیا کہنا تھا؟
اٹارنی جنرل گارلینڈ نے محکمہ انصاف کو سزائے موت کے عمل کا از سرنو جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے سینیئر حکام سے اپنے ایک خط میں کہا ہے کہ وہ سیاہ فام لوگوں پر پڑنے والے اس کے مختلف النوع اثرات سے پریشان ہیں۔ گارلینڈ نے اس امر کی جانب بھی توجہ دلائی کہ جن افراد کو سزائے موت سنائی جاتی ہے اس میں سے ایک بڑی تعداد کو بری بھی کر دیا جاتا ہے۔
اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے ایک بیان میں کہا، ''محکمہ انصاف کو یہ یقینی بنانا ہو گا کہ وفاقی کریمنل جسٹس سسٹم کے تحت بھی ہر شخص کو وہ تمام حقوق ملنے چاہیں جس کی امریکی آئین اور قوانین میں ضمانت دی گئی ہے اور سبھی کے ساتھ منصفانہ اور انسانی سلوک بھی ہو نا چاہیے۔ سزائے موت کے کیسز میں یہ ذمہ داری خاص طور پر بڑھ جاتی ہے۔''
اس حکم کی روشنی میں جب تک جائزے کا یہ عمل مکمل نہیں ہو جاتا اس وقت وفاقی سطح پر کسی بھی موت کی سزا پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
دنیا بھر میں سزائے موت پر عمل درآمد میں کمی
01:45
ٹرمپ انتظامیہ سے مختلف پالیسی
وفاقی سطح پر موت کی سزا پر عمل کو روکنے کا یہ فیصلہ سابقہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کے بالکل برعکس ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں وفاقی سطح پر موت کی سزاؤں پر تیزی سے عمل ہوا اور سابق اٹارنی جنرل ولیئم بار کی سرپرستی میں جنوری 2020 سے جنوری 2021 کے دوران 13 افراد کو موت کی سزا دی گئی۔ گزشتہ 120 برس کی امریکی تاریخ میں کسی بھی دور صدارت میں اتنی بڑی تعداد میں سزائے موت کا یہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔
ولیئم بار نے وفاقی سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے پینٹو بار بیٹل نامی ایک دوا کے استعمال کی سفارش کی تھی۔ تاہم اس کے ناقدین کا کہنا تھا کہ اس دوا کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جسے دوا دی گئی ہو اسے لگتا ہے کہ جیسے وہ آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہو اور اس سے اس کی تکلیف میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
صدر جو بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران موت کی سزا کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور موت کی سزا کے خلاف مہم چلانے والی تنظیمیں اب ان سے اپنا وعدہ پورا کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
ان تمام کوششوں کے باوجود بائیڈن انتظامیہ نے 2013 میں بوسٹن میں ہونے والی میراتھن میں دھماکہ کرنے والے والوں میں سے ایک شخص کی موت کی سزا پر عمل در آمد کرنے کے لیے محکمہ انصاف پر دباؤ تک ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
ص ز/ ج ا (ویزلی ڈیکوری)
سب سے زیادہ سزائے موت کن ممالک میں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران عالمی سطح پر قریب ایک ہزار افراد کو سنائی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کون سے ملک سرفہرست رہے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۱۔ چین
چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق سن 2017 میں بھی چین میں ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۲۔ ایران
ایران میں ہر برس سینکڑوں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، جن میں سے زیادہ تر افراد قتل یا منشیات فروشی کے مجرم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایران میں پانچ سو سے زائد افراد سزائے موت کے بعد جان سے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل تاہم یہ نہیں جان پائی کہ اس برس کتنے ایرانیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/S. Lecocq
۳۔ سعودی عرب
ایران کے حریف ملک سعودی عرب اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سن 2017 کے دوران سعودی عرب نے 146 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
تصویر: Nureldine/AFP/Getty Images
۴۔ عراق
چوتھے نمبر پر مشرق وسطیٰ ہی کا ملک عراق رہا جہاں گزشتہ برس سوا سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عراق میں ایسے زیادہ تر افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ 65 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزا بھی سنائی، جن پر سال کے اختتام تک عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
۵۔ پاکستان
پاکستان نے گزشتہ برس ساٹھ سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سن 2017 میں پاکستانی عدالتوں نے دو سو سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ سات ہزار سے زائد افراد کے خلاف ایسے مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۶۔ مصر
مصر میں اس عرصے میں پینتیس سے زیادہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: Reuters
۷ صومالیہ
ایمنسٹی کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ برس عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں میں تو کمی آئی لیکن اس کے ساتھ سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 24 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali
۸۔ امریکا
آٹھویں نمبر پر امریکا رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ ریاستوں میں 23 افراد کو سزائے موت دے دی گئی، جب کہ پندرہ ریاستوں میں عدالتوں نے 41 افراد کو سزائے موت دینے کے فیصلے سنائے۔ امریکا میں اس دوران سزائے موت کے زیر سماعت مقدموں کی تعداد ستائیس سو سے زائد رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
۹۔ اردن
مشرق وسطیٰ ہی کے ایک اور ملک اردن نے بھی گزشتہ برس پندرہ افراد کی سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا۔ اس دوران مزید دس افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ دس سے زائد افراد کو ایسے مقدموں کا سامنا رہا، جن میں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
تصویر: vkara - Fotolia.com
۱۰۔ سنگاپور
دسویں نمبر پر سنگاپور رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ افراد موت کی سزا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 2017 میں سنگاپور کی عدالتوں نے پندرہ افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ اس دوران ایسے چالیس سے زائد مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔