امریکا: ٹرمپ کی سیاست کے خلاف مظاہرے، چھ سو مظاہرین گرفتار
29 جون 2018
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تارکین وطن سے متعلق سیاسی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے چھ سو مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ مظاہرین امریکی کانگریس کی عمارت کے سامنے احتجاج کر رہے تھے۔
اشتہار
واشنگٹن سے جمعہ انتیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی کے این اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ سینکڑوں مظاہرین مقامی وقت کے مطابق جمعرات کی شام ملکی صدر ٹرمپ کی اس حکمت عملی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے، جس کے تحت ڈونلڈ ٹرمپ نے دیگر ممالک سے تارکین وطن کی غیر قانونی طور پر امریکا آمد کے خلاف ’صفر برداشت‘ کی سوچ کا اعلان کر رکھا ہے۔
ان قریب 600 گرفتار شدگان میں اکثریت خواتین مظاہرین کی ہے۔ یہ افراد غیر قانونی تارکین وطن کے ان خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ان سے امریکی حکام کے ناروا سلوک کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، جن کے نابالغ بچوں کو ان کے والدین سے علیحدہ حراست میں رکھا جا رہا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام پر بہت سی تنظیموں نے یہ کہہ کر شدید تنقید کی ہے کہ وہ تارکین وطن کے خلاف اپنی کارروائیوں میں مبینہ طور پر یہ بھی بھول گئی ہے کہ کسی بھی طرح کے حالات میں بالغوں کے بنیادی انسانی حقوق اور بچوں کے حقوق کا لازمی طور پر خیال رکھا جانا چاہیے۔
ان مظاہروں کا اہتمام کرنے والی سرکردہ شخصیات میں شامل ایک خاتون سماجی کارکن لِنڈا سارسور نے نیوز ایجنسی کے این اے کو بتایا، ’’امریکی پارلیمان کی عمارت کے سامنے اس احتجاج میں خاص طور پر بہت بڑی تعداد میں خواتین اس لیے شامل ہوئیں کہ وہ تارکین وطن کے خاندانوں کی امریکی حکام کی طرف سے جبری تقسیم اور نابالغ بچوں کے ان کے والدین سے علیحدگی کے بعد مختلف حراستی مراکز میں رکھنے جانے پر شدید نالاں تھیں۔‘‘
واشنگٹن میں ملکی کانگریس کے سامنے ان احتجاجی مظاہروں میں ہزارہا افراد شریک ہوئے اور ان کا مطالبہ تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ غیر قانونی تارکین وطن کو ’مجرم بنا کر پیش کرنے‘ سے باز رہے۔ بتایا گیا ہے کہ گرفتار شدگان میں مبینہ طور پر امریکی کانگریس کے کئی ارکان بھی شامل ہیں، جو ’مظاہرین کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے ان میں گھل مل گئے تھے‘ لیکن گرفتار کر لیے گئے۔
آئندہ ویک اینڈ پر (ہفتہ تیس جون اور اتوار یکم جولائی کو) امریکا میں تارکین وطن کی نمائندہ کئی تنظیموں اور شہری اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کئی اداروں نے ٹرمپ انتظامیہ کی تارکین وطن سے متعلق سیاست کے خلاف واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے سامنے بھی ایک بہت بڑے احتجاجی مظاہرے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔
م م / ش ح / کے این اے
بیدخل کیے جانے والے میکسیکن کی واپسی لیکن نئی شروعات کیسے
امریکی صدر کے حکم پر غیرقانونی میکسیکن مہاجرین کی ملک بدری کا سلسلہ جاری ہے۔ کئی واپس بھیجے جانے والے مہاجرین نصف سے زائد زندگی امریکا میں بسر کر چکے ہیں۔ ہر ہفتے ایسے مہاجرین کے تین ہوائی جہاز میکسیکو سٹی پہنچ رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Blackwell
ایک تلخ واپسی
امریکا میں مقیم غیرقانونی مہاجرین کو میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر پہنچایا جاتا ہے۔ ان کو ہتھکڑیاں پہنا کر ہوائی جہاز پر سوار کرایا جاتا ہے۔ ہوائی جہاز کے اترنے سے بیس منٹ قبل یہ ہتھکڑیاں کھول دی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
غیرقانونی اجنبی
جورج نینو کو اُس وقت پتہ چلا کہ وہ امریکا میں ایک غیرقانونی مہاجر ہے، جب اُس کی عمر اٹھارہ برس کی ہوئی۔ اُسے حکام نے سوشل سکیورٹی نمبر دینے سے انکار کر دیا۔ جورج کے والدین اُسے کم عمری میں امریکا لائے تھے۔ بچپن سے امریکا میں زندگی بسر کرنے والا جورج پانچ برس قبل بیدخل کر کے میکسیکو پہنچا دیا گیا۔ وہ چونتیس برس امریکا میں رہا۔ اُس کے چار بچے جو سابقہ بیوی کے ساتھ امریکی شہر فریزنو میں رہتے ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک غیر ملک
ماریا ہیریرا ستائیس برس کی ہے، اُسے امریکی حکام نے رواں برس دس اپریل کو ڈی پورٹ کیا۔ وہ امریکا میں اپنے قیام میں توسیع کے لیے ویزے کا انتظار کر رہی تھی کہ گرفتار کر لی گئی۔ وہ تین برس کی عمر میں میکسیکو سے امریکا پہنچی تھی۔ اب امریکا کی طرح میکسیکو بھی اُس کے لیے اجنبی دیس ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی شروعات
ماریا کی جورج سے ملاقات ایک غیرسرکاری تنظیم نیو کومینزوس کے دفتر میں ہوئی تھی۔ یہ تنظیم غیر ملکیوں کی معاونت کرتی ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور اس سے بھی بےخبر تھے کہ ایک دن انہیں میکسیکو سٹی میں ایک نئی زندگی کی شروعات کرنا ہو گی۔ امریکا میں ماریا کو گرفتاری کے بعد ڈیپرشن کا بھی سامنا رہا۔ اب وہ نئی زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
تصویر: DW/S. Derks
گرفتاری اور ملک بدری
ڈیگو میگوئل کی عمر سینتیس برس ہے، اُس کو سابقہ گرل فرینڈ کے ساتھ لڑائی کے نتیجے میں سن 2003 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ میگوئل کو امریکی حکام نے سن 2016 میں ملک بدر کر دیا۔
تصویر: DW/S. Derks
ٹرمپ اور اُس کی دیوار
پانچ ملک بدر کیے گئے میکسیکن شہریوں کو حکومت نے مالی معاونت کی اور اب وہ چھپائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی تیار کردہ ٹی شرٹس اور بیگز پر ’ٹرمپ اور اُن کی دیوار‘ لکھا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
مددگار ہاتھ
ڈیگو کے پاس کوئی بہت بڑی تنخواہ والی نوکری نہیں لیکن اپنے محدود وسائل کے ساتھ وہ میکسیکو سٹی کے ہوائی اڈے پر ملک بدر کیے گئے ہم وطنوں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ ایسے افراد کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ وہ بھی امریکا سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ اُسے میکسیکو میں اپنا جدا ہو جانے والا بیٹا بہت یاد آتا ہے، جو اُس کی سابقہ بیوی کے ساتھ امریکا ہی میں مقیم ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
ایک نئی ابتدا ہو گئی ہے
ڈینئل سونڈوان کو رواں برس فروری میں امریکا سے بیدخل کیا گیا۔ وہ بہت مطمئن ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ امریکا میں وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت کم سوچتا تھا کیونکہ کوئی بھی کام شروع کرنے سے قبل اُسے شناختی دستاویزات کی ضرورت تھی، جو اُس کے پاس نہیں تھیں لیکن اس بیدخلی کے بعد میکسیکو میں وہ ایک بہتر مستقبل تعمیر کر سکتا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
اطمینان سے آبادکاری
ڈینئل سونڈوان ایک پرنٹ شاپ کے اوپر رہ رہا ہے۔ ایک پادری نے اُس کی ابتدائی رہائش کا بندوبست کیا تھا۔ وہ میکسیکو سٹی میں ایک پچھتر برس کی خاتون کے گھر پر دو ہفتے مقیم رہا۔ اب بیدخل کیے جانے والے افراد کی مقامی تنظیم ڈی پورٹاڈوس کے تعاون سے وہ ایک نئی رہائش گاہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Derks
بیدخلی کا روشن پہلو
بہت سارے بیدخل کیے جانے والے اپنی ساری جمع پونجی امریکا میں ہی چھوڑ چکے ہیں۔ کئی ایسے افراد کہتے ہیں کہ جو چھن چکا ہے، وہ سب کچھ نہیں تھا۔ یہ لوگ اپنے ملک میں قانونی شہری ہیں اور وہ کسی خوف کے بغیر جی رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں گے۔