امریکا پابندیوں کی دھمکی دینے سے اجتناب کرے، ایردوآن
29 جولائی 2018
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ واشنگٹن حکومت کی جانب سے پابندیوں کی دھمکی انقرہ حکومت کے فیصلے تبدیل نہیں کرا سکتی۔
اشتہار
ایردوآن نے واضح الفاظ میں کہا کہ ترکی میں قید امریکی پادری کو کسی صورت رہا نہیں کیا جائے گا۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر ترکی نے زیرحراست امریکی پادری کو رہا نہ کیا، تو ترکی کے خلاف پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔
اتوار کے روز ایردوآن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’آپ پابندیوں کی دھمکی دے کر ترکی کے فیصلے تبدیل نہیں کر سکتے۔‘‘
ٹرمپ کی جانب سے پابندیوں کی دھمکی پر ایردوآن کا یہ پہلا ردعمل تھا۔ ٹرمپ نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ اگر ترکی میں قید امریکی پادری انڈریو براؤنسن کو رہا نہ کیا گیا، تو واشنگٹن حکومت ترکی پر پابندیاں عائد کر دے گی۔
ترک اخبار حریت میں شائع ہونے والے بیان میں ایردوآن نے کہا، ’’امریکا کو بھولنا نہیں چاہیے کہ اگر اس نے ترکی کی بابت اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا، تو وہ ایک مضبوط اور مخلص پارٹنر سے محروم ہو سکتا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ براؤنسن ترک شہر ازمیر میں ایک پروٹیسٹنٹ چرچ سے وابستہ تھے اور انہیں قریب دو برس قبل ناکام فوجی بغاوت سے تعلق کے شبے میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ چند روز قبل ایک عدالت نے انہیں جیل سے گھر میں نظربند کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ تاہم اس معاملے پر امریکا اور ترکی کے درمیان تعلقات خاصے کشیدہ ہیں۔
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/chromorange
11 تصاویر1 | 11
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو واضح الفاظ میں دھمکی دی تھی کہ امریکی پادری کو فوری طور پر رہا کیا جائے، دوسری صورت میں ترکی کے خلاف وسیع تر پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔
یہ بات اہم ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان شام میں کرد جنگجو گروپ YPG کے معاملے پر تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔ امریکا اس کرد جنگجو گروپ کی حمایت کرتا ہے، تاہم انقرہ حکومت اسے دہشت گرد گروہ قرار دیتی ہے۔ اسی طرح ترک حکومت امریکا میں مقیم جلاوطن ترک مبلغ فتح اللہ گولن پر ناکام فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کرتے ہوئے امریکا سے مطالبات کرتی آئی ہے کہ انہیں ترکی کے حوالے کیا جائے۔ گولن اس بغاوت سے تعلق کے الزامات کو رد کرتے آئے ہیں، جب کہ امریکی حکومت بھی گولن کی انقرہ حکومت کو حوالگی کے مطالبات مسترد کرتی ہے۔