امریکا تو خوش، لیکن طالبان کی ناراضی پاکستان کے مفاد میں ہے؟
عبدالستار، اسلام آباد
21 جنوری 2019
افغانستان میں بحالی امن کی کوششوں کے لیے پاکستان کے کردار کی تعریف کی جا رہی ہے تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان امریکا کو خوش کرنے کے لیے افغان طالبان کے خلاف طاقت یا دباؤ کے استعمال سے اجتناب کرے۔
اشتہار
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے اپنے حالیہ چارہ روزہ دورے کے دوران پاکستان میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں ہیں جب کہ امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ڈنفورڈ اور صدر ٹرمپ کے قریبی رفیق سینیٹر لنڈسی گراہم نے بھی پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت سے ملاقاتیں کیں ہیں، جن کا محور افغانستان میں امن کی کوششیں تھا۔
ماضی میں امریکا اور افغانستان پاکستان پر ’دوہرے کھیل‘ کا الزام عائد کرتے رہے ہیں لیکن اب اسلام آباد کے ناقدین بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی و عسکری قیادت امن کے قیام کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔
افغان امور پر گہری نظر رکھنے والے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کے خیال میں پاکستان کو اس بات کا احساس ہوگیا ہے کہ افغانستا ن میں صرف طالبان ہی ایک 'اسٹیک ہولڈر‘ نہیں ہیں بلکہ دیگر فریق بھی ہیں، جن کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے افراسیاب خٹک کا کہنا تھا، ’’افغان طالبان کے ظہور کی وجہ سے پاکستانی طالبان کی حوصلہ افزائی ہوئی، جس نے ملک کو عسکریت پسندی کا شکار بنایا۔ ہمارے معاشرے کے اس پر بہت بھیانک اثرات مرتب ہوئے۔ پاکستانی طالبان نہ صرف فاٹا اور پشاور میں بھتے وصول کر رہے تھے بلکہ وہ یہ کام کراچی اور اسلام آباد میں بھی کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ سی پیک اور علاقائی ممالک کے رویے نے بھی پاکستان کو سرد جنگ والی پالیسی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا ہے اور اب لگتا ہے کہ پاکستان طالبان کے سخت موقف کی حمایت نہیں کرے گا ۔‘‘
کئی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ طالبان ملک کے پچاس فیصد حصے پر اپنی عملداری قائم کیے ہوئے ہیں لیکن افراسیاب خٹک کے خیال میں یہ دعویٰ حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا۔ ان کے مطابق، ''افغانستان بہت تبدیل ہوچکا ہے۔ وہاں آٹھ ملین کے قریب طالبِ علم ہیں۔ ساٹھ کے قریب ٹی وی چینلز ہیں۔ کئی شہری مراکز میں زندگی کی ہلچل ہے۔ تو طالبان کو حقیقت پسند بننا پڑے گا۔ اب پاکستان سمیت کوئی بھی افغانستان پر طالبان کا نوے کی دہائی والا قبضہ پسند نہیں کرے گا، جس کا ایک مظاہرہ اسلام آباد کی طرف سے افغان طالبان پر حالیہ دباؤ ہے۔ چین کی بھی اب افغانستان کے حوالے سے ایک واضح پالیسی ہے، جس کا مرکزی نقطہ امن و استحکام ہے۔‘‘
2018: دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک
سن 2018 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 64 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے واقعات میں 4271 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد قریب 10 ہزار تھی۔ داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 52 فیصد کمی ہوئی۔ اس کے باوجود عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل چودہ برس سے سر فہرست رہا۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس سے کم ہو کر 9.75 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے تاہم اس برس افغانستان میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد عراق سے بھی زیادہ رہی۔ گزشتہ برس افغانستان میں قریب بارہ سو دہشت گردانہ حملوں میں 4653 افراد ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.39 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.66 کے ساتھ نائجیریا اس تیسرے نمبر پر ہے۔ سن 2017 کے دوران نائجیریا میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے کچھ زائد رہی جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں سولہ فیصد کم ہے۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
سن 2016 کی نسبت گزشتہ برس شام میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اڑتالیس فیصد کم رہی۔ اس کے باوجود خانہ جنگی کا شکار یہ ملک قریب گیارہ سو ہلاکتوں کے ساتھ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام کا اسکور 8.6 سے کم ہو کر اس رپورٹ میں 8.3 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پانچویں نمبر پر پاکستان ہے جہاں گزشتہ برس 576 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے آٹھ سو انسان ہلاک ہوئے۔ 2016ء کے مقابلے میں گزشتہ برس تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 17 فیصد کم رہی۔ داعش خراسان کے حملوں میں 50 فیصد جب کہ لشکر جھنگوی کے حملوں کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی امسالہ فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا، گزشتہ انڈیکس میں صومالیہ ساتویں نمبر پر تھا۔ اس ملک میں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں 93 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں صومالیہ کا اسکور 7.6 سے بڑھ کر 8.02 ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
بھارت بھی اس فہرست میں آٹھ کی بجائے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا جب کہ ہلاکتوں کی تعداد میں بھی بارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 384 بھارتی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن کر ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ بھارت کا اسکور 7.57 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ تاہم سن 2016 کے مقابلے میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 75 فیصد کم رہی۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 141 واقعات میں 378 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔ گزشتہ انڈیکس میں یمن چھٹے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
مصر
مصر ایک مرتبہ پھر دہشت گردی سے متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہو گیا۔ 169 دہشت گردانہ واقعات میں 655 افراد ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر حملے داعش کے گروہ نے کیے۔ مصر کا جی ٹی آئی اسکور 7.35 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Abdallah
فلپائن
دہشت گردی کے 486 واقعات میں 326 انسانوں کی ہلاکتوں کے ساتھ فلپائن بھی ٹاپ ٹین میں شامل کیا گیا۔ فلپائن کا انڈیکس اسکور 7.2 رہا۔ فلپائن میں پینتیس فیصد حملوں کی ذمہ داری کمیونسٹ ’نیو پیپلز آرمی‘ نے قبول کی جب کہ داعش کے ابوسیاف گروپ کے حملوں میں بھی اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو
گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں 7.05 کے اسکور کے ساتھ گیارہویں نمبر جمہوری جمہوریہ کانگو ہے۔
تصویر: DW/J. Kanyunyu
ترکی
ترکی گزشتہ انڈیکس میں پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس برس ترکی میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کم ہوئی۔ موجودہ انڈیکس میں ترکی کا اسکور 7.03 رہا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2016ء میں لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی اکثر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ گزشتہ انڈیکس میں لیبیا 7.2 کے اسکور کے ساتھ دسویں جب کہ تازہ انڈیکس میں 6.99 اسکور کے ساتھ تیرہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/H. Amara
13 تصاویر1 | 13
پاکستانی ذرائع ابلاغ نے کچھ دنوں پہلے یہ رپورٹ کیا تھا کہ طالبان کے ایک رہنما ملا محب اللہ محب کو پاکستانی حکام نے حراست میں لے لیا تھا۔ کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں حکام نے ایسا افغان طالبان پر دباؤ بڑھانے کے لیے کیا تھا لیکن خطے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کے خیال میں طالبان کے خلاف دباؤ یا طاقت کا استعمال پاکستان کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ طلعت اے وزارت کے خیال میں امریکا پاکستان کو افغانستان کے مسئلے پر مشکل میں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، ’’امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کے خلاف طاقت استعمال کر کے انہیں مذاکرات کی میز پر لے آئے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو افغان طالبان آگ بگولہ ہو جائیں گے اور جس دہشت گردی کو ہم نے بڑی مشکل سے کچلا ہے، وہ ایک بار پھر سر اٹھا لے گی۔ لہذا ہمیں بہت محتاط ہونا چاہیے اور طالبان کو آزادانہ طور پر امریکا سے بات چیت کرانے کی کوشش کو مضبوط کرنا چاہیے۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان نے جنرل پرویز مشرف کے دور میں طالبان کے کئی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا تھا، جنہیں کچھ برس پہلے رہا کیا گیا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان بہت ’اکڑ مزاج‘ ہیں اور وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں کسی بھی قسم کا دباؤ پاکستان کی لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ یوسف زئی کے بقول، ’’طالبان کے پاس اب دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں۔ اگر ہم نے ان کے رہنماؤں یا ان کے گھرانے کے افراد کو حراست میں لیا تو وہ ایران یا قطر چلے جائیں گے لیکن اس کے بعد ہمارے طالبان سے تعلقات بہت خراب ہوجائیں گے۔ ہم نے ماضی میں ان کے چالیس سے زائد رہنماؤں کو حراست میں لیا لیکن نہ ہی طالبان نے اور نہ ان کے ان رہنماؤں نے اپنے موقف میں کوئی لچک پیدا کی۔‘‘
پاکستان اس مشکل سے کیسے نکل سکتا ہے؟ دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں پاکستان کوسعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دوسرے ممالک کے ذریعے طالبان کو منانے کی کوشش کرنے چاہیے۔ اعجاز اعوان کی رائے میں، ’’ہمیں کسی کے بھی کہنے پر ان کے خلاف طاقت یا دباؤ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
افغانستان: کب کیا ہوا ؟
طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد سے دنیا کے چالیس سے زائد ممالک افغانستان میں موجود رہے۔ بم دھماکے آج بھی اس ملک میں معمول کی بات ہیں۔ نیٹو افواج کا جنگی مشن اختتام پذیر ہو گیا ہے لیکن ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ
گیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آپریشن اینڈیورنگ فریڈم
ان حملوں نے امریکی حکومت کو افغانستان پر حملہ آور ہونے کا جواز فراہم کیا اور بش حکومت نے سات اکتوبر کو اسامہ بن لادن کے ممکنہ ٹھکانوں پر بمباری کا آغاز کیا۔ تیرہ نومبر 2001ء کو دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا گیا۔ طالبان نے پاک افغان سرحدی علاقوں میں پسپائی اختیار کر لی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلی بون کانفرنس
طالبان کے زوال کے بعد اقوام متحدہ کی چھتری تلے افغانستان پر چار بڑے نسلی گروپوں کے رہنما بون کے قریبی مقام پیٹرزبرگ کی کانفرنس میں شریک ہوئے۔ شرکاء نے جمہوریت کے نفاذ کے لیے پانچ دسمبر 2001ء کو صدر حامد کرزئی کے تحت عبوری حکومت کے قیام پر اتفاق کیا۔
تصویر: Getty Images
جرمن افواج کی روانگی
بائیس دسمبر 2001ء کو جرمن پارلیمان کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ’مشن فریڈم‘ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ انٹرنیشنل سیکورٹی اسسٹنس فورس (ایساف) کو مقامی حکومت کی تعمیر نو میں مدد اور سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کا کام سونپا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پہلے فوجی کی ہلاکت
چھ مارچ 2002ء کو ایک دو طرفہ لڑائی میں پہلا جرمن فوجی ہلاک ہوا۔ اس کے بعد جرمن فوجیوں کو کئی مرتبہ نشانہ بنایا گیا۔ سات جون 2003ء کو کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس میں چار فوجی ہلاک اور دیگر انتیس زخمی ہوئے۔ جرمن فوجیوں پر یہ پہلا خودکش حملہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیا آئین
جنوری 2004ء کو افغانستان کے نئے جمہوری آئین کی منظوری دی گئی۔ 502 مندوبین نے صدارتی نظام کے تحت ’اسلامی جمہوریہ افغانستان‘ میں انتخابات کی راہ ہموار کی۔ نو اکتوبر 2004ء کو حامد کرزئی نے فتح کا جشن منایا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
برلن کانفرنس
اکتیس مارچ 2004ء کو برلن کانفرنس کے دوران بین الاقوامی برادری نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے 8.2 ارب ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ جرمنی نے 80 ملین یورو دینے کا وعدہ کیا۔ اس کانفرنس میں منشیات کے خلاف جنگ اور ایساف دستوں کی مضبوطی کا اعلان بھی کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
لندن کانفرنس
اکتیس جنوری 2006ء کو لندن کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغانستان کے لیے پانچ سالہ منصوبے اور 10.5 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سکیورٹی کے نام پر متعدد کانفرنسوں کا انعقاد ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
قندوز کا فضائی حملہ
چار ستمبر 2009ء کو طالبان نے تیل کے بھرے دو ٹینکروں کو اغوا کیا۔ جرمن کرنل گیورگ کلائن نے فضائی حملے کے احکامات جاری کر دیے، جس کے نتیجے میں تقریبا ایک سو عام شہری مارے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمن فوجیوں کا یہ سب سے ہلاکت خیز حملہ تھا۔ شدید تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن صدر کا استعفیٰ
اکتیس مئی 2010ء کو افغانستان میں جرمن فوجیوں کے ساتھ ملاقات کے بعد واپسی پر جرمن صدر ہورسٹ کوہلر نے ایک متنازعہ انٹرویو دیا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی جنگ جرمن اقتصادی مفادات کی وجہ سے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے بعد ان پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور انہیں مستعفی ہونا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کابل کا سربراہی اجلاس
انیس جولائی 2010ء کو سکیورٹی کے سخت انتظامات کے تحت کابل میں نیٹو ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ افغانستان کے غیر مستحکم حالات کے باوجود سن 2014ء کے بعد غیر ملکی افواج کے انخلاء کا فیصلہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارلیمانی انتخابات
اٹھارہ ستمبر 2010ء کو افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کروایا گیا۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق ان میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ کوئی بھی امیدوار واضح برتری حاصل نہ کر سکا اور فیصلہ صدر کرزئی کے حق میں ہوا۔
تصویر: picture alliance/dpa
اسامہ بن لادن کی ہلاکت
دو مئی 2011ء کو امریکا کی اسپیشل فورسز نے پاکستانی شہر ابیٹ آباد میں حملہ کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔ امریکی صدر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس خفیہ آپریشن کی براہ راست نگرانی کرتے رہے۔ ہزاروں امریکیوں نے بن لادن کی ہلاکت کا جشن منایا۔
تصویر: The White House/Pete Souza/Getty Images
دوسری بون کانفرنس
جنگ کے دس برس بعد پانچ دسمبر 2011ء کو ایک دوسری بین لاقوامی بون کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس میں سن 2024ء تک افغانستان کو مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ اس کے بدلے میں صدر کرزئی نے اصلاحات کرنے، کرپشن کے خاتمے اور جمہوریت کے استحکام جیسے وعدے کیے۔
تصویر: Getty Images
ذمہ داریوں کی منتقلی
اٹھارہ جون 2013ء کو صدر حامد کرزئی نے ملک بھر میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔ اسی دن کابل میں ایک خودکش حملہ ہوا، جس نے اس اعلان کی خوشیوں ختم کر کے رکھ دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیٹو جنگی مشن کا اختتام
افغانستان میں نیٹو کے جنگی مشن کا اختتام ہو گیا ہے۔ بین الاقوامی برادری مستقبل میں بھی افغانستان کو اربوں ڈالر بطور امداد فراہم کرے گی۔ لیکن افغانستان کے لیے آزادی اور خود مختاری کی طرف جانے والا یہ راستہ کانٹوں سے بھرپور ہے۔