1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لے گا، بلنکن

14 ستمبر 2021

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا ہے کہ پاکستان کو طالبان کی حکومت کو تب تک تسلیم نہیں کرنا چاہیے جب تک کہ وہ بین الاقوامی شرائط پر پورا نہیں اترتے۔

تصویر: Anna Moneymaker/Getty Images

امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے امور خارجہ کی سماعت کے دوران انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ امریکا آنے والے ہفتوں میں پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کا جائزہ لے گا اور یہ دیکھے گا کہ واشنگٹن پاکستان سے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کس کردار کا متمنی ہے۔

بلنکن نے کمیٹی کی سماعت کے دوران کہا پاکستان کے افغانستان کے حوالے سے مختلف مفادات ہیں اور ان میں سے کچھ ہمارے مفادات سے متضاد ہیں۔ جیسے کہ طالبان ممبران کو پناہ دینا اور افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے اپنے مفادات کو ترجیح دینا۔ اس سماعت کے دوران بلنکن کو امریکی اراکین کانگریس کی جانب سے پاکستان کے حوالے سے کڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ امریکا پاکستان کے حوالے سے سخت پالیسی اپنائے۔

پاکستان پر تنقید کوئی نہیں نئی بات نہیں

پاکستانی صحافی اویس توحید جو کئی مرتبہ افغانستان کا دورہ کر چکے ہیں اور موجودہ حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' امریکا اور طالبان مخالف گروہ پاکستان کی ماضی کی پالیسیوں کی بنا پر پاکستان پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔'' اویس توحید کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ پاکستان کا طالبان کے ساتھ ایک ماضی ہے جس میں ان کی سابقہ حکومت کو تسلیم کرنے جیسے فیصلے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان پر اپنے ماضی کے کردار کا بوجھ بہت بھاری ہے۔

انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد کے سربراہ اور پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری کا اس حوالے سے کہنا تھا،'' پاکستان پر تنقید کیے جانا کوئی نئی بات نہیں، پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ''پاکستان اور امریکا کے تعلقات صرف افغانستان اورانسداد دہشت گردی یا صرف چین کے حوالے سے نہیں ہونے چاہیں۔'' اعزاز چوہدری کے مطابق موجودہ تنقید غلط فہمی کی بنیاد پر کی جا رہی ہے اور وہ غلط فہمی یہ ہے کہ امریکی قانون سازوں کو بیس سالوں سے یہی بتایا گیا کہ امریکا افغانستان میں جنگ جیت رہا ہے اور اگر کوئی مشکلات ہیں تو صرف اس لیے کہ پاکستان طالبان کی مدد کر رہا ہے۔''

طالبان کو تسلیم کیا جائے یا نہیں؟

امریکا اور مغربی ممالک طالبان کی فتح کے بعد ایک مشکل صورتحال میں ہیں۔ وہ نہ تو طالبان حکومت کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں لیکن اس حقیقت کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ انہیں افغانستان میں بہت بڑے انسانی بحران میں مدد کرنے کے لیے طالبان حکومت کے ساتھ بات چیت کرنا پڑے گی۔ اویس توحید کے مطابق امریکا شش و پنج میں مبتلا ہے۔ ''امریکا میں تضاد پایا جاتا ہے، طالبان کے ساتھ گفتگو جاری رکھی جائے یا نہیں، انہیں تسلیم کیا جائے یا نہیں، امریکا طالبان کو اپنے روایتی حریف روس اور چین کی جھولی میں بھی نہیں ڈالنا چاہتا۔ اس لیے اس وقت امریکا خود بھی پریشان ہے۔''

اویس توحید کے مطابق مغربی دنیا کو ایک جمہوری افغانستان سے زیادہ عزیز ان کے اپنے مفادات ہیں،'' بدقسمتی سے حقیقت یہ ہے کہ وہ طالبان کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، چاہے وہ القاعدہ اور داعش کے جنگجوؤں کے ساتھ لڑائی ہو یا ایغور جنگجوؤں  کے ساتھ مقابلہ اور ان مفادات کے باعث افغان عوام کو طالبان کے ‍حوالے کر دیا گیا ہے۔''

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں