امریکا پاکستان کے سلامتی کے تحفظات کا احترام کرے، چین
عاطف بلوچ، روئٹرز
24 اگست 2017
چین نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں پاکستان کے کردار اور اس کے اپنی ریاستی سلامتی سے متعلق تحفظات کا احترام کرے۔ جنوبی ایشیا کے لیے نئی امریکی پالیسی میں پاکستان سے متعلق سخت موقف کے باعث یہ چینی بیان اہم ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے چین کے سرکاری میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ اعلیٰ ترین چینی سفارت کار یانگ جی ایچی نے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن سے ٹیلی فون پر گفتگو میں کہا کہ واشنگٹن حکومت افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے پاکستان کے کردار اور اس کی سلامتی سے متعلق تحفظات کا احترام کرے۔
رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ پاکستانی سرزمین پر جنگجوؤں کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف ملکی سطح پر مناسب کارروائی نہ کی گئی تو واشنگٹن حکومت مزید خاموش نہیں رہے گی۔
آپریشن خیبر فور: مقامی لوگ کیا کہتے ہیں؟
02:57
امریکا کا کہنا ہے کہ افغانستان سے متصل پاکستانی کے قبائلی علاقہ جات میں ان جنگجوؤں نے پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں، جو افغانستان میں امریکی مفادات کو نشانہ بناتے ہیں۔
تاہم اسلام آباد ان جنگجوؤں سے ریاستی سطح پر رابطوں کی تردید کرتا ہے۔
افغانستان اور جنوبی ایشیائی سطح پر اپنی نئی پالیسی کے تحت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شورش زدہ ملک افغانستان میں مزید فوجی تعینات کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
انہوں نے اس تناظر میں امریکا کی طویل ترین جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے نئے عزم کا اظہار بھی کیا تھا۔
ٹرمپ نے اصرار کیا تھا کہ افغانستان کے سولہ سالہ تنازعے کے خاتمے کی خاطر پاکستان اور افغانستان کے علاوہ بھارت اور نیٹو اتحادی ممالک کو بھی زیادہ کردار ادا کرنا چاہیے۔
پاکستان کے بارے میں سخت امریکی موقف کے بعد چینی وزارت خارجہ نے واشنگٹن حکومت سے کہا ہے کہ علاقائی سطح پر اس تنازعے کے حل کی خاطر پاکستانی کوششوں کو سراہا جانا چاہیے۔
یانگ جی ایچی نے بدھ کے روز ٹلرسن کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو میں کہا، ’’ہمیں افغانستان میں پاکستان کے اہم کردار کے علاوہ پاکستان کی خود مختاری اور قابل فہم سکیورٹی تحفظات کی بھی قدر کرنا چاہیے۔‘‘ ساتھ ہی اس اعلیٰ ترین چینی سفارت کار نے مزید کہا کہ بیجنگ حکومت افغانستان اور علاقائی سطح پر قیام امن کی اضافی کوششوں میں زیادہ تعاون پر تیار ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ چینی حکومت کو اپنے ملک میں بھی سکیورٹی کے حوالے سے تحفظات ہیں۔ بالخصوص مغربی چین کے صوبے سنکیانگ میں ہوئے کئی حملوں کے لیے بیجنگ حکومت پاکستان اور افغانستان میں فعال ایغور جنگجوؤں کو مورد الزام ٹھہرا چکی ہے۔
چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے منگل کے دن ہی بیجنگ میں پاکستانی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ سے ملاقات کی تھی، جس کے بعد انہوں نے کہا تھا کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے تناظر میں پاکستان اور چین کے تعلقات زیادہ اہمیت کے حامل ہو چکے ہیں۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔