امریکا، پولیس فائرنگ سے سیاہ فام کی موت، پرتشدد مظاہرے جاری
28 اکتوبر 2020
امریکا میں پولیس کی گولی سے ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کے تازہ واقعے کے بعد فلاڈیلفیا میں دوسری رات بھی پرتشدد مظاہرے اور لوٹ مار کے واقعات پیش آئے۔
تصویر: Tom Gralish/The Philadelphia Inquirer/AP Photo/picture-alliance
اشتہار
امریکا میں صدارتی انتخابات سے ٹھیک چند روز پہلے پہلے فلاڈیلیفیا میں پولیس کی گولی لگنے سے ایک سیاہ فام شخص کی موت ہو گئی، جس کے بعد سینکڑوں مشتعل مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے پرتشدد مظاہرے کیے اور متعدد دکانوں کو لوٹ لیا۔ مظاہروں میں پولیس کے اہلکاورں سمیت کئی درجن افراد زخمی ہوگئے ہیں جب کہ متعدد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
محکمہ پولیس نے ٹویٹر پر لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ تقریباً 1000 افراد پر مشتمل ایک 'بڑا ہجوم‘ کاسٹر اور ارامنگو علاقے میں دکانوں کو لوٹ رہا ہے۔ اس لیے شہریوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ اس علاقے میں جانے سے پرہیز کریں۔
خبروں میں دکھائی جانے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ فٹ لاکر اسٹور اور دیگر دکانوں کو توڑ کر اس کا سامان لوٹ رہے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک رپورٹر کے مطابق مغربی فلاڈیلفیا میں بھی تقریباً 1000 افراد جمع تھے اور پولیس انہیں منتشر کرنے کے لیے لاٹھیاں برسا رہی تھی۔
پنسلوانیا کے گورنر ٹام وولف کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ''عوام کی حفاظت کرنے اور لوگوں کے پرامن اکٹھا ہونے اور مظاہرے کرنے کے حق کا خیال رکھنے‘ کے لیے شہر میں نیشنل گارڈ کے سینکڑوں جوانوں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے قتل پر امریکا سراپا احتجاج
امریکا میں پولیس کے ہاتھوں سیاہ فاموں کے خلاف منظم غیر منصفانہ سلوک کے خلاف مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق ملکی فوج اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے تیار ہے اور استعمال کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
’میرا دم گھٹ رہا ہے‘
پولیس کی طرف سے سیاہ فام باشندوں کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری مبینہ ظالمانہ طرز عمل کے خلاف تازہ مظاہروں کا آغاز پیر 25 مئی کو چھیالیس سالہ افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ ایک پولیس افسر نے فلوئڈ کو منہ کے بل گرا کر اس کے ہاتھوں میں ہتھ کڑی ڈالنے کے باوجود اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے مسلسل دبائے رکھا۔ اس کی وجہ سے فلوئڈ سانس گھٹنے سے موت کے منہ میں چلا گیا۔
تصویر: picture-alliance/newscom/C. Sipkin
پر امن احتجاج سے پرتشدد جھڑپیں
ہفتے کے دن تک زیادہ تر مظاہرے پر امن تھے مگر رات کے وقت کچھ جگہوں پر پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے باہر نیشنل گارڈز تعینات کر دیے گئے۔ انڈیاناپولس میں کم از کم ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا مگر پولیس کا کہنا تھا کہ اس میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ فلاڈیلفیا میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ نیویارک میں پولیس کی گاڑی نے احتجاجی مظاہرین کو ٹکر دے ماری۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/J. Mallin
دکانوں میں لوٹ مار اور توڑ پھوڑ
لاس اینجلس میں ’بلیک لائیوز میٹر‘کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیا گیا اور ان پر ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں۔ بعض شہروں، جن میں لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو اور مینیاپولس شامل ہیں، مظاہرے جھڑپوں میں بدل گئے۔ ساتھ ہی لوگوں نے مقامی دکانوں اور کاروباروں میں تھوڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Pizello
’لوٹ مار کب شروع ہوئی ۔۔۔‘
امریکی صدر نے دھمکی دی ہے کہ وہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے فوج بھیج سکتے ہیں۔ ٹرمپ کے بقول ان کی انتظامیہ پرتشدد مظاہروں کو سختی سے روکے گی۔ ٹرمپ کے یہ الفاظ ملک بھر میں غم و غصے کا سبب بنے۔ ٹرمپ نے تشدد کی ذمہ داری انتہائی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروپوں پر عائد کی۔ تاہم مینیسوٹا کے گورنر کے بقول ایسی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ سفید فاموں کی برتری پر یقین رکھنے والے لوگ تشدد کو بھڑکا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/K. Birmingham
میڈیا بھی نشانہ
ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے صحافیوں کو بھی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں نے نشانہ بنایا۔ جمعے کو سی این این کے سیاہ فام رپورٹر عمر جیمینیز اور ان کے ساتھی کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ کئی صحافیوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا یا گرفتار کیا گیا جب وہ براہ راست رپورٹنگ کر رہے تھے۔ ڈی ڈبلیو کے صحافی اسٹیفان سیمونز پر بھی اس وقت گولی چلا دی گئی جب وہ ہفتے کی شب براہ راست رپورٹ دینے والے تھے۔
تصویر: Getty Images/S. Olson
مظاہروں کا سلسلہ دنیا بھر میں پھیلتا ہوا
یہ مظاہرے پھیل کر اب دیگر ممالک تک پہنچ چکے ہیں۔ ہمسایہ ملک کینیڈا میں ہفتے کے روز ہزاروں افراد نے ٹورانٹو اور وینکوور میں سڑکوں پر مارچ کیا۔ جرمنی، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے علاوہ کئی یورپی ملکوں میں بھی سیاہ فاموں کے خلاف ناروا سلوک اور نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہار یک جہتی بھی کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Shivaani
ہیش ٹیگ جارج فلوئڈ
ہفتے کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں واقع امریکی سفارت خانے کے سامنے ہزاروں لوگوں نے مارچ کیا۔ مظاہرین نے جارج فلوئڈ کی ہلاکت اور امریکا میں منظم انداز میں نسل پرستی پھیلائے جانے کے خلاف احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M:.Schreiber
7 تصاویر1 | 7
کشیدگی اور تشدد کا یہ تازہ واقعہ 27 سالہ والٹر ویلیس کی موت کے بعد پیش آیا ہے۔ والٹر کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ ذہنی امراض کا شکار تھا۔ دوسری طرف پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے والٹر کو چاقو پھینکنے کے لیے کہا تھا لیکن جب اس نے ایسا نہیں کیا تو اسے گولی مار دی گئی۔
والٹر کی موت کے بعد پیر کی رات سینکڑوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے خلاف احتجاج کیا۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی اور لاٹھیاں برسائیں اور اس کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔ زخمی ہونے والوں میں 30 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں، جب کہ پولیس نے 90 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
پولیس کی ترجمان تانیا لٹل نے بتایا کہ پولیس کو پیر کے روز اطلاع ملی تھی کہ ایک شخص ہاتھ میں ہتھیار لیے ہوئے ہے۔ اس کے بعد پولیس افسر کرابس کریک علاقے میں پہنچے، جہاں ان کا سامنا والٹر ویلیس سے ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چاقو تھا۔ پولیس نے اسے چاقو پھینک دینے کے لیے کہا۔ پولیس ترجمان کے مطابق والٹر پولیس افسران کی طرف بڑھ گئے جس کے بعد دونوں افسران نے 'کئی مرتبہ‘ گولی چلائی۔ ویلیس کے کندھے اور سینے پر گولی لگی۔ ایک افسر نے ویلیس کو ہسپتال پہنچایا، جہاں انہیں مردہ قراردے دیا گیا۔
والٹر ویلیس کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ ذہنی بیماری سے دوچار تھے اور خاندان نے ایمبولینس کے لیے فون کیا تھا۔ پولیس فائرنگ کی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائر ل ہو رہی ہے۔ دوسری طرف پولیس کی دلیل ہے کہ والٹر چاقو لیے ہوئے تھے اور انہوں نے پولیس کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم والٹر کے والدین کا کہنا ہے کہ پولیس کو پتہ تھا کہ ان کا بیٹا ذہنی بیماری سے متاثر ہے۔ والٹر کی والدہ کا کہنا تھا”وہ وہاں کھڑے تھے اور ہم پر ہنس رہے تھے۔"
سیاہ فام والٹر ویلیس کی ہلاکت کے بعد فلاڈیلفیا میں دوسری رات بھی پرتشدد مظاہرے ہوئے۔تصویر: Jessica Griffin/The Philadelphia Inquirer/AP Photo/picture-alliance
والٹر ویلیس کی ہلاکت کا معاملہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب امریکا میں تین نومبر کو صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور 'بلیک لائیوز میٹر‘ اس میں ایک اہم موضوع ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ مئی میں مینی سوٹا میں جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد امریکا سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔
والٹر ویلیس کی ہلاکت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں نے پولیس پر نسل پرستی اور بے رحمی سے کارروائی کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔
صدر ٹرمپ کے حریف ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن نے مظاہرین سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے پیٹر ویلیس کے خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
ج ا/ ا ا (اے ایف پی، اے پی)
پولیس تشدد کے خلاف غم وغصہ اب پوری دنیا میں پھیلتا ہوا