امریکا، چین، پاکستان سمیت دنیا کی نظریں پوٹن مودی ملاقات پر
جاوید اختر، نئی دہلی
4 اکتوبر 2018
روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی باہمی تعلقات کو ایک نئی جہت دینے کے لیے بات چیت کررہے ہیں اور پوری دنیا بالخصوص امریکا، چین اور پاکستان کی نظریں اسی ملاقات پر لگی ہوئی ہیں۔
اشتہار
صدر ولادیمیر پوٹن کے آج جمعرات چار اکتوبر سے شروع ہونے والے بھارت کے دو روزہ دورے کے دوران ماسکو اور نئی دہلی ایک ایسے دفاعی معاہدے پر دستخط کرنے والے ہیں، جس سے چین اور پاکستان کی پریشانیاں بڑھ سکتی ہیں۔ دوسری طرف اسی وجہ سے بھارت کے خلاف امریکی پابندیوں کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔
کل جمعہ پانچ اکتوبر کو صدر پوٹن اور وزیر اعظم مودی کے درمیان سرکاری وفود کی سطح پر مذاکرات کے بعد پانچ بلین ڈالر سے زیادہ مالیت کے ایک ایسے دفاعی معاہدے پر دستخط ہو جانے کی امید ہے، جس کے تحت روس بھارت کو انتہائی جدید فضائی دفاعی میزائل نظام ایس چارسو فروخت کرے گا۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس ڈیفنس میزائل سسٹم کے مل جانے کے بعد بھارت کا دفاعی نظام جہاں کافی مستحکم اور تقریباً ناقابل تسخیر ہو جائے گا، وہیں پر پڑوسی ممالک کے دفاعی نظام بھی اس سے کمتر ہو جائیں گے۔
نئی دہلی میں دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایس چار سو طرز کے ایئر ڈیفنس میزائل سسٹم مل جانے کے بعد بھارتی فوج حریف ممالک کی تمام سرگرمیوں پر گہری نگاہ رکھ سکے گی۔ اس کی رفتار سترہ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہے، جو کسی بھی موجودہ طیارے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس کی مدد سے بھارتی فوج پاکستان کے چپے چپے پر نگاہ رکھ سکے گی اور پاکستان کی طرف سے کسی بھی طرح کا حملہ کرنے سے قبل ہی اسے ناکام بنا دیا جائے گا۔ یہ روسی میزائل سسٹم اب تک روس کے علاوہ صرف چین اور ترکی کے پاس ہیں۔
کس ملک کے پاس کتنے طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں؟
دنیا میں اب تک 168 طیارہ بردار بحری بیڑے بنائے جا چکے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں محض 19 بحری بیڑے زیر استعمال ہیں۔ پکچر گیلری میں جانیے کس ملک نے کتنے بحری بیڑے تیار کیے اور کتنے آج زیر استعمال ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/Zumapress
تھائی لینڈ
تھائی لینڈ کے پاس ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جسے 1997 میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ بحری بیڑہ اب بھی ملکی بحریہ کے استعمال میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہالینڈ
چالیس کی دہائی کے اواخر میں ہالینڈ نے برطانیہ سے دو طیارہ بردار بحری بیڑے خریدے تھے۔ 1968 میں ان میں سے ایک ارجیٹینا کو فروخت کر دیا گیا تھا جو اب قابل استعمال نہیں ہے۔ دوسرا بحری بیڑہ سن 1971 میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/arkivi
ارجنٹائن
ہالینڈ سے خریدے گیا بحری بیڑا سن 1969 سے لے کر 1999 تک ارجنٹائن کی بحریہ کے زیر استعمال رہا۔ علاوہ ازیں اے آر اے انڈیپینڈینسیا بحری بیڑا 1959 سے لے کر 1969 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
برازیل
برازیل کے پاس اس وقت ایک فرانسیسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جو سن 2000 سے زیر استعمال ہے۔ اس کے علاوہ ساٹھ کی دہائی میں خریدا گیا ایک اور بحری بیڑہ بھی سن 2001 تک برازیل کی بحریہ کا حصہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa/A. Zemlianichenko
اسپین
خوان کارلوس نامی بحری بیڑہ سن 2010 سے ہسپانوی بحریہ کا حصہ ہے جب کہ ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ریزرو میں بھی موجود ہے۔ جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے دو ہسپانوی بحری بیڑے متروک بھی ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/P. Dominguez
آسٹریلیا
آسٹریلیا کے پاس مختلف اوقات میں تین ایسے جنگی بحری بیڑے تھے، جو لڑاکا طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے دو پچاس کی دہائی کے اواخر جب کہ تیسرا سن 1982 تک آسٹریلوی بحریہ کے استعمال میں رہے۔
تصویر: picture-alliance/epa/J. Brown
کینیڈا
گزشتہ صدی کے وسط میں کینیڈا کے پاس جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے پانچ بحری بیڑے تھے جنہیں ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت کینیڈا کے پاس ایسا ایک بھی بحری بیڑہ موجود نہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
بھارت
آئی این ایس وکرمادتیا نامی روسی ساخت کا طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 2013 سے بھارتی بحریہ کے استعمال میں ہے۔ جب کہ کوچین شپ یارڈ میں ورکرنت نامی ایک اور بحری بیڑے کی تعمیر جاری ہے۔ ویرات نامی بحری بیڑہ سن 2016 تک استعمال میں رہنے کے بعد اب ریزرو میں شامل کیا جا چکا ہے جب کہ ایک بحری بیڑہ سن 1961 سے لے کر 1997 تک زیر استعمال رہنے کے بعد اسکریپ کیا جا چکا ہے۔
تصویر: Imago/Hindustan Times/A. Poyrekar
روس
اس وقت روسی فوج کے زیر استعمال صرف ایک ایسا بحری بیڑہ ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد روس نے نوے کی دہائی کے پہلے پانچ برسوں کے دوران چار طیارہ بردار بحری بیڑوں میں سے تین اسکریپ کر دیے تھے جب کہ ایک کی تجدید کے بعد اسے بھارت کو فروخت کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-lliance/AP Photo
جاپان
دوسری عالمی جنگ سے قبل جاپان کے پاس بیس طیارہ بردار جنگی بحری بیڑے تھے جن میں سے اٹھارہ عالمی جنگ کے دوران امریکی حملوں کے باعث تباہ ہو کر سمندر برد ہو گئے تھے۔ دیگر دو کو جاپان نے سن 1946 میں ڈی کمیشن کرنے کے بعد اسکریپ کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/Handout/P. G. Allen
فرانس
فرانسیسی بحریہ کے تصرف میں اس وقت ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے جب کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے گزشتہ صدی کے اختتام تک کے عرصے میں فرانس نے سات طیارہ بردار بحری بیڑے اسکریپ کر دیے تھے۔
تصویر: dapd
جرمنی
جرمنی نے بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر دوسری عالمی جنگ تک کے عرصے کے دوران آٹھ طیارہ بردار بحری بیڑے تیار کرنے کے منصوبے بنائے تھے جو مختلف وجوہات کی بنا پر مکمل نہ ہو سکے۔ اس وقت جرمن بحریہ کے پاس ایک بھی ایسا بحری بیڑہ نہیں ہے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
تصویر: picture alliance/akg-images
برطانیہ
اس وقت برطانوی نیوی کے زیر استعمال کوئی طیارہ بردار بحری بیڑہ نہیں ہے لیکن لندن حکومت گزشتہ چند برسوں سے دو بحری بیڑوں کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ صدی میں برطانیہ کے تصرف میں چالیس ایسے بحری بیڑے تھے جو جنگی طیارے لے جانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان میں سے چار دوسری عالمی جنگ کے دوران تباہ ہوئے جب کہ دیگر کو اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Marine Nationale
اٹلی
اطالوی بحریہ کے پاس اس وقت دو طیارہ بردار بحری بیڑے ہیں جن میں سے ایک سن 1985 سے جب کہ دوسرا سن 2008 سے زیر استعمال ہے۔ اٹلی کا ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ سن 1944 میں ڈوب گیا تھا جب کہ ایک کو پچاس کی دہائی میں اسکریپ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/B. Riegert
چین
چین نے تیرہ مئی 2018 کے روز مکمل طور پر ملک ہی میں تیار کردہ پہلے طیارہ بردار بحری بیڑے کو تجرباتی بنیادوں پر سمندر میں اتارا۔ اس سے قبل چینی بحریہ کے پاس ایک روسی ساختہ طیارہ بردار بحری بیڑہ موجود ہے جسے سن 1998 میں یوکرائن سے خریدا گیا تھا اور اسے بحال کر کے سن 2012 میں قابل استعمال بنا لیا گیا تھا۔
امریکی فوج کے پاس اس وقت دس طیارہ بردار بحری بیڑے زیر استعمال ہیں جب کہ ایک ریزرو میں بھی موجود ہے۔ امریکی بحری بیڑے طیاروں کی پرواز اور لینڈنگ کے حوالے سے بھی نہایت جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہیں اور انہیں جوہری توانائی سے چلایا جاتا ہے۔ امریکا گزشتہ صدی کے دوران 56 بحری بیڑے اسکریپ کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com
16 تصاویر1 | 16
یہ سوال تاہم اپنی جگہ برقرار ہے کہ روس کے ساتھ اس سودے کے بعد اگر امریکا نے بھارت پر پابندیاں عائد کر دیں، تو کیا ہو گا؟ گزشتہ ماہ واشنگٹن نے اسی طرح کی پابندی چین پر اس وقت لگا دی تھی، جب اس نے روس سے جنگی طیارے اور نئے میزائل ڈیفنس سسٹم خریدے تھے۔
بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت اس سودے کے ذریعے ایک طرف روس کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ماسکو اب بھی نئی دہلی کا ’خاص دوست‘ ہے تو دوسری طرف امریکا کو بھی یہ اشارہ دینا چاہتا ہے کہ ’ہم آپ کے دوست ہیں لیکن ہم آپ کی تمام باتیں ماننے والے نہیں ہیں‘۔
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/M. Swarup
14 تصاویر1 | 14
معروف تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انیلیسس سے وابستہ لکشمن کمار بہیرا نے اس معاہدے کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’روس چین کو ایس چار سو میزائل ڈیفنس سسٹم پہلے ہی دے چکا ہے۔ اس کے بعد ہی بھارت روس کے ساتھ اس دفاعی معاہدے کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہوگیا تھا۔ یہ بہت خاص دفاعی سودا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ بھارت یہ سسٹم حاصل کرنے کے دوران امریکا کے سامنے نہیں جھکے گا۔‘‘
دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سودے سے جہاں ایک طرف امریکا کو کافی مایوسی ہو گی، وہیں پاکستان کی فکر مندی بھی بڑھ جائے گی۔ دفاعی امور کے ماہر راہول بیدی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے، ’’یہ پاکستان کے لیے بہت تشویش کی بات ہو گی۔ ایس چار سو آنے کے بعد بھارت پاکستان پر اور بھی بھاری پڑے گا۔ دراصل بھارت نے امریکا سے ہتھیاروں کی خریداری شروع کی تھی، تو پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی تعلقات بڑھنے لگے تھے۔ ایسے میں بھارت کو ڈر تھا کہ روس کہیں پاکستان کو ایس چارسو میزائل نہ دے دے۔ بھارت نے روس کے ساتھ اس سودے میں یہ شرط بھی رکھی ہے کہ وہ پاکستان کو ایس چار سو میزائل سسٹم نہیں دے گا۔‘‘
راہول بیدی نے مزید لکھا ہے، ’’روس اگر پاکستان کو ایس چار سو میزائل نہیں دیتا، تو اس کو اس کا کوئی متبادل نہیں ملے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ یورپ یا امریکا اس کے جواب میں کوئی ڈیفنس سسٹم دیں گے۔ پاکستان کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں کہ وہ اسے خرید سکے۔ بھارت او رروس پر اب امریکا کا دباؤ بہت کا م نہیں کرے گا۔ ایسا اس لیے کہ دونوں ممالک نے گزشتہ دو تین ماہ سے اپنی اپنی کرنسی روپے اور روبل میں کاروبار کرنا شروع کردیا ہے۔‘‘
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
9 تصاویر1 | 9
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اور روس کے درمیان ایس چار سو میزائل ڈیفنس سسٹم کے سودے سے امریکا کے بھارت سے ناراض ہو جانے کا خدشہ تو ہے لیکن بھارت کے لیے یہ خطرہ مول لینا بھی ضروری ہے۔ دفاعی امور کے ماہر اور سوسائٹی فار پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ایئرکموڈور (ریٹائرڈ) اُدھے بھاسکر کا کہنا ہے، ’’بھارت کے لیے امریکا اور روس دونوں سے بہتر تعلقات رکھنا ضروری ہے اور اسے اس سلسلے میں بہت سوچنا ہو گا۔ بھارت کو ایک سیاسی اور اسٹریٹیجک فیصلہ کرنا ہو گا کہ امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کو وہ کس طرح محفوظ رکھتا ہے اور اپنے پرانے دوست روس کے ساتھ بھی بہتر تعلقات کیسے قائم رکھتا ہے۔‘‘
یہ امر قابل ذکر ہے کہ سابق سوویت یونین بھارت کا گہرا دوست تھا لیکن گزشتہ چندبرسوں میں ہونے والی عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں بھارت کا رخ امریکا کی طرف ہوتا چلا گیا تھا۔ حالیہ برسوں میں امریکا بھارت کو ہتھیاروں کی سپلائی کرنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے لیکن روس اب بھی پہلے نمبر پر ہے۔ اسٹاک ہولم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ یا سِپری کے مطابق 2012 سے 2016 کے درمیان بھارت کی مجموعی دفاعی درآمدات میں سے 68 فیصد تجارت روس کے ساتھ ہوئی تھی۔
صدر پوٹن اور وزیر اعظم مودی کل جب بات چیت کریں گے، تو بھارت روس سے دو بلین ڈالر کے کراواک کلاس کے چار جنگی جہاز اور ایک بلین ڈالر کے کے اے 226 جنگی ہیلی کاپٹروں کی خریداری کے لیے بھی بات آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا۔
چین اور بھارت کا تقابلی جائزہ
ماضی میں بھارت اور چین کے مابین تواتر سے کئی معاملات میں اختلاف رائے رہا ہے۔ ان ممالک کے درمیان ایک خلیج حائل ہے اور اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ بھارت میں چین کی صلاحیتیوں کے بارے میں کم معلومات بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/A.Wong
رقبہ
بھارت: 32,87,469 مربع کلو میٹر ، چین: 95,96,960 مربع کلو میٹر
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Chang
ساحلی علاقہ
بھارت: 7,516 کلو میٹر ، چین: 14,500 کلو میٹر
تصویر: picture alliance/dpa/Blanches/Imaginechina
آبادی
بھارت: 1.32 بلین ، چین: 1.37 بلین
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Jianhua
حکومتی نظام
بھارت: جمہوری پارلیمانی نظام ، چین: یک جماعتی غیر جمہوری نظام
تصویر: picture alliance/dpa
ملکی خام پیداوار (جی ڈی پی)
بھارت: 2,256 بلین ڈالر، چین: 11,218 بلین ڈالر
تصویر: Reuters/J. Dey
فی کس جی ڈی پی
بھارت: 6,616 ڈالر، چین : 15,399 ڈالر
تصویر: DW/Prabhakar
فی کس آمدنی
بھارت: 1,743 ڈالر، چین: 8806 ڈالر
تصویر: picture-alliance/ZB
متوقع اوسط عمر
بھارت: 69.09 برس ، چین: 75.7 برس
تصویر: Reuters/A. Abidi
شرح خواندگی
بھارت: 74.04 فیصد ، چین: 91.6 فیصد
تصویر: Imago/View Stock
افواج
بھارت: 12,00,000 سپاہی ، چین: 23,00,000 سپاہی
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Wong
برآمدات
بھارت: 423 بلین ڈالر، چین: 2,560 بلین ڈالر
تصویر: Getty Images/AFP
درآمدات
بھارت: 516 بلین ڈالر، چین: 2,148 بلین ڈالر
تصویر: Getty Images/AFP/Str
بندرگاہیں
بھارت: 12 بڑی اور 200 چھوٹی ، چین: 130 بڑی اور 2000 درمیانے سائز کی بندرگاہیں