امریکا کا اسرائیلی فلسطینی امن منصوبہ ’خطرناک چال‘، خامنہ ای
22 جولائی 2019
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مطابق اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین قیام امن کے لیے امریکا کا تجویز کردہ نیا منصوبہ ایک ’خطرناک چال‘ ہے، جس کا مقصد سرمائے کے ذریعے فلسطینیوں کی شناخت تباہ کرنا ہے۔
اشتہار
ایرانی دارالحکومت تہران سے پیر بائیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ایران کے اعلیٰ ترین رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای نے آج کہا کہ واشنگٹن نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے جو نیا منصوبہ پیش کیا ہے، اس کے لیے بین الاقوامی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسرائیلی فلسطینی تنازعے کو حل کرنے کی سوچ اپنائی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسی 'خطرناک چال‘ ہے، جو سرمائے کے ذریعے فلسطینیوں کی شناخت کو تباہ کرنے کے لیے چلی گئی ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کردہ ان کے ایک بیان کے مطابق، ’’اس خطرناک منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینی قوم کی اپنی علیحدہ شناخت ہی ختم کر دی جائے۔ یہی وہ مرکزی پہلو ہے، جس کی وجہ سے اس منصوبے کی بھرپور مخالفت کی جانا چاہیے، کیونکہ کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ سرمائے کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے فلسطینیوں کی پہچان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔‘‘
حماس کے وفد کا دورہ، خامنہ ای سے ملاقات
ایرانی دارالحکومت سے پیر بائیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ایران کے سرکاری ٹیلی وژن نے بتایا کہ فلسطینی تنظیم حماس کا ایک وفد اس وقت ایران کے دورے پر ہے اور اس وفد نے ملکی سپریم لیڈر علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کی ہے۔
اس وفد کی سربراہی حماس کے نائب سربراہ صالح العاروری کر رہے ہیں اور اس وفد نے آج پیر کے روز آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ ملاقات میں ان کے ساتھ مختلف امور پر تفصیلی بات چیت کی۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے اِرنا نے لکھا ہے کہ حماس کے اس وفد نے خامنہ ای کے مشیر کمال خرازی سے بھی ملاقات کی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے اس وفد کے ایران کے موجودہ دورے سے قبل ابھی گزشتہ ہفتے ہی ایرانی پارلیمان کے ایک اعلیٰ اہلکار حسین امیر عبداللہیان نے بھی لبنان کا دورہ کیا تھا۔
ایرانی حکومت اور ملکی مذہبی قیادت فلسطینی تنظیم حماس اور لبنانی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ کی بڑی حامی ہیں۔ ایران کی طرح حماس بھی اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی اور دونوں ہی اسرائیل کے بقا کے حق کی تردید کرتے ہوئے اس کی تباہی کے خواہش مند ہیں۔
م م / ش ح / روئٹرز، اے پی
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔