امریکا: افغانستان اورعراق میں فوج کی تعداد کم کرنے کا اعلان
18 نومبر 2020
امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے منگل کے روز اعلان کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاوس چھوڑنے سے قبل افغانستان اورعراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کافی کمی کردیں گے۔
اشتہار
پنٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکا اگلے دو ماہ کے دوران افغانستان سے اپنے تقریباً 2000 اور عراق سے مزید 500 فوجیو ں کو واپس بلا لے گا۔ دوسری طرف نیٹو کے سربراہ جینز اسٹولٹن برگ نے افغانستان سے جلد بازی میں فوجیوں کی واپسی کے مضمرات کے تئیں متنبہ کیا ہے۔
قائم مقام امریکی وزیر دفاع کرسٹوفر ملر نے کہا کہ 15جنوری تک افغانستان سے 2000 اور عراق سے 500 امریکی فوجیں واپس بلالی جائیں گی۔ جس کے بعد دونوں ملکوں میں سے ہر ایک میں امریکی فوجیوں کی تعداد 2500 رہ جائے گی۔
کرسٹوفر ملر نے کہا کہ کہ امریکا نے خطے میں زیادہ تر مرکزی اہداف حاصل کرلیے ہیں۔ داعش کو بھی شکست دے دی گئی ہے۔ یہ وقت ہے کہ امریکی فوجیوں کو گھر واپس لایا جائے۔ انہوں نے کہا”یہ ہمارے طے شدہ منصوبوں اور اسٹرٹیجک مقاصد کا حصہ ہیں، جسے امریکی عوام کی تائید حاصل ہے اور یہ امریکی پالیسی یا مقاصد میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہے۔"
قائم مقام امریکی وزیر دفاع نے اس تاثر کی تردید کی کہ امریکا کا یہ اقدام افغانستان اور عراق میں دہشت گردوں کے لیے دروازے کھولنے کے مترادف ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے وزیر دفاع مارک ایسپر کو برطرف کرنے کے بعد ملر کو مقرر کیا تھا۔
ٹرمپ نے، جو حالیہ صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن سے شکست کے بعد آئندہ جنوری میں وائٹ ہاوس چھوڑنے والے ہیں، پچھلے دنوں اعلان کیا تھا کہ کرسمس سے قبل دونوں ملکوں سے تمام امریکی فوجیں واپس بلالی جائیں گی۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔
تصویر: AP
10 تصاویر1 | 10
نیٹو کا موقف
قبل ازیں منگل کو نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے افغانستان سے جلد بازی میں فوجیوں کی واپسی کے تئیں متنبہ کرتے ہوئے کہا”اتنی جلد بازی میں یا غیر مربو ط انداز میں انخلاء کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑسکتی ہے۔"
اسٹولٹن برگ نے مزید کہا کہ ”افغانستان کے عالمی دہشت گردوں کا ایک بار پھر مرکز بننے کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ یہ دہشت گرد ہمارے ملکوں پر حملوں کی منصوبہ بندی اور انتظام کریں گے اور داعش افغانستان میں دہشت کی وہ خلافت دوبارہ قائم کر سکتی ہے جس سے وہ شام اور عراق میں محروم ہوگئی ہے۔"
نیٹو کے 30 ممالک کے تقریباً 12000 افواج اس وقت افغانستان میں موجود ہیں۔ یہ فوجی افغانستان کی قومی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور مدد کا کام کرتے ہیں۔ اس میں امریکی فوجیوں کی تعداد نصف ہے لیکن نیٹو کے اتحادی نقل و حمل، لوجیسٹکس، فضائی ٹرانسپورٹ اور دوسرے کاموں میں مدد کے لیے بڑی حد تک امریکی فوجیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ امریکی فوجیوں کی مکمل واپسی کی صورت میں افغانستان میں نیٹو کا آپریشن تقریباً ختم ہوکر رہ جائے گا۔
نیٹو کے سربراہ کے مطابق ”اب ہمیں ایک مشکل فیصلے کا سامنا ہے۔ ہم تقریباً 20 سال سے افغانستان میں ہیں اور کوئی نیٹو اتحادی ضرورت سے زیادہ وہاں نہیں رکنا چاہتا، لیکن بہت جلدی میں یا غیرمربوط انداز میں کیے جانے والے انخلا کی قیمت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔"
اسٹولٹن برگ نے کہا کہ امریکی فوجیوں کی تعداد میں مزید کمی کے بعد بھی نیٹو، افغان سکیورٹی فورسز کی معاونت، مشاورت اور تربیت کا کام جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ 'ہم نے 2024 تک انہیں فنڈ کی فراہمی کا عزم کر رکھا ہے۔‘نیٹو کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یورپ اور دوسرے ملکوں کے ہزاروں فوجی افغانستان میں امریکی فوجیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ایک ہزار سے زیادہ فوجی مارے جا چکے ہیں۔
بلند حوصلہ افغان فوجی خواتین
02:25
انہوں نے مزید کہا'ہم اکٹھے افغانستان گئے اور جب صحیح وقت آئے گا تب ہمیں اکٹھے ہو کر مربوط اور منظم طریقے سے وہاں سے نکلنا چاہیے۔ مجھے تمام نیٹو اتحادیوں پر اعتماد ہے کہ وہ ہماری سلامتی کے لیے اس عزم پر کاربند رہیں گے۔‘
اشتہار
امریکی افواج کی واپسی کا سبب
امریکا اورطالبان کے درمیان اس سال کے اوائل میں قطر میں ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کی روسے امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں کے افواج کو افغانستان سے نکلنے کے لیے 14 ماہ کے ایک منصوبے پر اتفاق رائے ہوگیا تھا۔
افغان سکیورٹی امور کے ماہر عتیق اللہ امرخیل نے اس سال کے اوائل میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا اپنی فوجوں کو افغانستان سے شاید اس لیے بھی جلد از جلد واپس نکالنا چاہتا ہے کیوں کہ وہ صدر اشرف غنی کی حکومت سے مایوس ہوگیا ہے۔
امرخیل کا کہنا تھا”افغان حکومت امن مساعی کے حوالے سے خاطرخواہ پیش رفت نہیں کر رہی ہے اور امریکا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جا رہا ہے۔ واشنگٹن افغان رہنماوں کو ایک واضح پیغام دینا چاہتا ہے کہ زمینی صورت حال خواہ جو بھی رہے وہ ملک چھوڑ کر چلا جائے گا۔"
گوکہ امریکا افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی کم کررہا ہے تاہم وہ ملک کے سفارتی معاملات میں بھرپور حصہ لے رہا ہے۔
بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی تصاویر
عراقی دارالحکومت بغداد میں مشتعل شیعہ مظاہرین نے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا ہے۔ یہ افراد مرکزی دروازہ توڑ کر سفارت خانے میں داخل ہوئے اور استقبالیہ کے سامنے امریکی پرچم نذر آتش کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
بتایا گیا ہے کہ اس سے قبل سفارتی عملے کو عمارت سے نکال لیا گیا تھا۔ بغداد کے محفوظ ترین علاقے میں جاری اس احتجاج میں ہزاروں افراد شریک ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
یہ مظاہرے ایرانی حمایت یافتہ شیعہ جنگجوؤں پر امریکی فضائی حملے کے خلاف کیے جا رہے ہیں۔ اتوار کو امریکی فضائیہ نے ایرانی حمایت یافتہ کتائب حزب اللہ ملیشیا کے ایک ٹھکانے کو نشانہ بنایا تھا، جس میں کم از کم پچیس جنگجو مارے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سفارت خانے کے حفاظتی دستوں کی جانب سے مظاہرین کو واپس دھکیلنے اور منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/K. Mohammed
مظاہرین امریکی سفارت خانے کے بالکل سامنے امریکا مردہ باد کے نعرے بلند کرتے ہوئے سفارت خانے کی حدود میں داخل ہوئے۔ مظاہرین نے پانی کی بوتلیں بھی پھینکیں اور سفارت خانے کے بیرونی سکیورٹی کیمرے بھی توڑ ڈالے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
آج بغداد کے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے پر حملہ امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے جنگجوؤں کی تدفین کے بعد کیا گیا۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
جنگجوؤں کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد مظاہرین نے امریکی سفارت خانے کی طرف مارچ جاری رکھا اور آخر کار سفارت خانے کا بیرونی دروازہ توڑنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی منصوبہ سازی کا الزام ایران پر عائد کیا ہے۔ ٹرمپ کے بقول ایران نے ایک امریکی ٹھیکیدار کو ہلاک اور کئی کو زخمی کیا، جس کے جواب میں فضائی کارروائی کی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani
امریکی صدر کے مطابق آج کے اس واقعے پر سخت امریکی رد عمل سامنے آئے گا۔ ان کے مطابق اب ایران بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کا ذمہ دار بھی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر عراقی حکام سے سفارت خانے کی حفاظت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AA/M. Sudani
امریکی سفارت خانے کے باہر ایک دستی بم پھٹنے سے دو افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ دوسری جانب امریکی صدر نے عراقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے مظاہرین کو قابو میں لائے۔ ماہرین کے رائے میں طاقت کے استعمال سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ مزید تقویت پکڑ سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. al-Sudani
9 تصاویر1 | 9
بغداد میں راکٹ حملے
امریکی افواج کو واپس بلانے کے پنٹاگون کے اعلان کے چند گھنٹے کے اندر ہی بغداد میں انتہائی سکیورٹی والے گرین زون میں چار راکٹ گرے۔
عراق کے دو سینئر عہدیداروں نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ یہ راکٹ امریکی سفارت خانے سے صرف 600 میٹر کی دوری پر گرے۔ امریکی فضائی دفاعی نظام نے ان راکٹوں کو فضا میں ہی روک لیا۔ تاہم اس حملے میں دو عراقی سکیورٹی اہلکار زخمی ہوگئے۔
فی الحال کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔