امریکا کا اپنے سفارت خانے کی مئی میں یروشلم منتقلی کا ارادہ
صائمہ حیدر
24 فروری 2018
واشنگٹن حکومت اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ رواں برس وسط مئی میں تل ابیب سے یروشلم منتقل کر نے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ یہ منتقلی اسرائیل کے قیام کی ستّرویں سالگرہ کے موقع پر عمل میں لائی جا سکتی ہے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس دسمبر میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے ملکی سفارت خانے کو تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل ایک طویل عرصے سے اس حوالے سے امریکی پالیسی یہ رہی کہ دارالحکومت کا فیصلہ فلسطین اور اسرائیل دونوں ریاستوں کے درمیان امن مذاکرات کے ذریعے طے ہونا چاہیے۔
گزشتہ ماہ اپنے یروشلم کے دورے کے موقع پر امریکی نائب صدر مائیک پینس نے کہا تھا کہ انہیں ملکی ایمبیسی کے سن 2019 سے پہلے یروشلم منتقل کیے جانے کی توقع نہیں ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکا کی جانب سے اس نئے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
اعلیٰ درجے کے ایک فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات نے جمعے کے روز کہا تھا کہ سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کا امریکی فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن حکومت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسئلے کے دو ریاستی حل کی کوششوں کو خاک میں ملانا چاہتی ہے۔ عریقات کے مطابق ایسا کرنے سے فلسطینی عوام کے جذبات مزید مشتعل ہوں گے۔
ایران میں یہودیوں کی مختصر تاریخ
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ شاہ بابل نبوکدنضر (بخت نصر) نے 598 قبل مسیح میں یروشلم فتح کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ یہودی مذہب کے پیروکار ہجرت کر کے ایرانی سرزمین پر آباد ہوئے تھے۔
تصویر: gemeinfrei
539 قبل مسیح میں سائرس نے شاہ بابل کو شکست دی جس کے بعد بابل میں قید یہودی آزاد ہوئے، انہیں وطن واپس جانے کی بھی اجازت ملی اور سائرس نے انہیں اپنی بادشاہت یعنی ایرانی سلطنت میں آزادانہ طور پر اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
سلطنت ایران کے بادشاہ سائرس اعظم کو یہودیوں کی مقدس کتاب میں بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں سائرس کا تذکرہ موجود ہے۔
تصویر: gemeinfrei
موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں بسنے والے یہودیوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی گئی اور ہزارہا یہودی اسرائیل اور دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر گئے۔ ایران کے سرکاری ذرائع کے مطابق اس ملک میں آباد یہودیوں کی موجودہ تعداد قریب دس ہزار بنتی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ایران میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تاریخ کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ یہ تصویر قریب ایک صدی قبل ایران میں بسنے والے ایک یہودی جوڑے کی شادی کے موقع پر لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
قریب ایک سو سال قبل ایران کے ایک یہودی خاندان کے مردوں کی چائے پیتے ہوئے لی گئی ایک تصویر
تصویر: gemeinfrei
تہران کے رہنے والے ایک یہودی خاندان کی یہ تصویر بھی ایک صدی سے زائد عرصہ قبل لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
یہ تصویر تہران میں یہودیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی ہے۔ ایرانی دارالحکومت میں یہودی عبادت گاہوں کی مجموعی تعداد بیس بنتی ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
دور حاضر کے ایران میں آباد یہودی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یہودیت کے آرتھوڈوکس فرقے سے ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
10 تصاویر1 | 10
امریکی نائب صدر مائیک پینس نے گزشتہ ماہ اسرائیلی پارلیمان سے خطاب میں کہا تھا کہ تل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانے کو اگلے برس کے اختتام تک یروشلم منتقل کر دیا جائے گا۔ اس موقع پر اسرائیلی پارلیمان میں بعض عرب قانون سازوں نے احتجاج کیا، تو انہیں اسمبلی سے نکال دیا گیا۔ تاہم پینس کے اس بیان کے برعکس امریکی ایمبیسی کی یروشلم منتقلی کے فیصلے پر عمل درآمد توقع سے بہت پہلے کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے حل کے لیے ’نئی سوچ اور پالیسی‘ اپنا رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی صدر کے اس فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے اسے ایک ’تاریخی سنگ میل‘ قرار دیا تھا۔
عرب اسرائیل جنگ کے پچاس برس مکمل
پچاس برس قبل عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: AFP/Getty Images
اسرائیلی فوج نے حملے کے بعد تیزی کے ساتھ پیش قدمی کی
پانچ جون کو اسرائیلی فوج نے مختلف محاذوں پر حملہ کر کے عرب افواج کی اگلی صفوں کا صفایا کر دیا تا کہ اُسے پیش قدمی میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
اسرائیلی فوج نے حملے میں پہل کی تھی
عالمی برادری اور خاص طور پر امریکا اِس جنگ کا مخالف تھا اور اُس نے واضح کیا کہ جو پہلے حملہ کرے گا وہی نتائج کا ذمہ دار ہو گا مگر اسرائیلی فوجی کمانڈروں کا خیال تھا کہ حملے میں پہل کرنے کی صورت میں جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
تصویر: Keystone/ZUMA/IMAGO
مشرقی یروشلم پر بھی اسرائیل قابض ہو گیا
اسرائیلی فوج کے شیرمین ٹینک دس جون سن 1967 کو مشرقی یروشلم میں گشت کرتے دیکھے گئے تھے۔ شیرمین ٹینک امریکی ساختہ تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Guillaud
چھ روز جنگ میں اسرائیلی فوج کو فتح حاصل ہوئی
اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کا کئی علاقوں پر قبضہ، پھر اُن کا اسرائیل میں انضمام اور دنیا کے مقدس ترین مقامات کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں پیدا تنازعہ مزید شدت ہو گیا۔
تصویر: Imago/Keystone
عرب افواج کے جنگی قیدی
پچاس برس قبل اسرائیلی فوج نے حملہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا اور بے شمار فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا۔
تصویر: David Rubinger/KEYSTONE/AP/picture alliance
جزیرہ نما سینائی میں اسرائیلی فوج کی کامیاب پیش قدمی
مصر کے علاقے جزیرہ نما سینائی میں مصری افواج اسرائیل کے اجانک حملے کا سامنا نہیں کر سکی۔ بے شمار فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اسرائیلی فوج نے مصری فوج کی جانب سے خلیج تیران کی ناکہ بندی کو بھی ختم کر دیا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
ہر محاذ پر عرب ممالک کو پسپائی کا سامنا رہا
غزہ پٹی پر قبضے کے بعد ہتھیار پھینک دینے والے فوجیوں کی پہلے شناخت کی گسی اور پھر اسرائیلی فوج نے چھان بین کا عمل مکمل کیا گیا۔