امریکا گزشتہ برس ایران میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف پرتشدد اقدامات میں ملوث ایرانیوں کے خلاف اگلے ہفتے تک پابندیاں نافذ کرنے جارہا ہے۔
اشتہار
امریکی حکومت کے کئی اعلی ذرائع نے نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ ایرانی اہلکاروں کے خلاف، ان کے بقول، ان پابندیوں کا اعلان حکومت مخالف مظاہروں کو کچلنے کے لیے1979کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اب تک کی سخت ترین خونریز کارروائیوں، کی پہلی برسی کے موقع پر کیا جائے گا۔
ایک امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ اگلے ہفتے ایک بڑی کارروائی کا اعلان متوقع ہے۔ اس کے تحت متعدد ایرانی اہلکاروں نیز کئی درجن ایرانی اداروں کے خلاف کارروائیاں شامل ہیں۔
اقو ام متحدہ میں ایرانی مشن کے ترجمان علی رضا میر یوسفی نے ایک بیان میں کہا”اگر یہ درست ہے تواس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔ اس سے ایک ایسی انتظامیہ کی مایوسی کی تصدیق ہوتی ہے جس کی ایرانی عوام کے تئیں دشمنی سے ہر کوئی واقف ہے۔"
امریکی محکمہ خارجہ نے ایران کے خلاف اگلے ہفتے سے ممکنہ پابندیوں کے نفاذ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے ایرانی وزارت خارجہ کے تین اہلکاروں کے حوالے سے اپنی ایک سابقہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ 15نومبر 2019 کو شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں تقریباً 1500 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں کم ا ز کم 17 نوعمر بچے اور 400 خواتین کے علاوہ ایرانی سکیورٹی فورسز اور پولیس کے اہلکار بھی شامل تھے۔
ایران میں خامنہ ای مخالف مظاہرے
ایرانی حکومت کی جانب سے یوکرائنی ہوائی جہاز کو غلطی سے مار گرانے کو تسلیم کرنے پر عوام نے اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے دارالحکومت ایران سمیت کئی دوسرے شہروں میں کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NurPhoto/M. Nikoubaz
تہران میں مظاہرے
ایرانی دارالحکومت تہران میں سینکڑوں افراد حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہے۔ یہ مظاہرین ایرانی حکومت کے خلاف زور دار نعرے بازی کرتے رہے۔ ان مظاہرین کو بعد میں ایرانی پولیس نے منتشر کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
امیر کبیر یونیورسٹی
تہران کی دانش گاہ صنعتی امیر کبیر (Amirkabir University of Technology) ماضی میں تہران پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ گیارہ جنوری سن 2020 کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اس یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/R. Fouladi
ایرانی مظاہرین کا بڑا مطالبہ
یونیورسٹی طلبہ کا سب سے اہم مطالبہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی دستبرداری کا تھا۔ ان مظاہرین نے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر کو پھاڑا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مظاہروں کا نیا سلسلہ
گیارہ جنوری کو مظاہرے تہران کے علاوہ شیراز، اصفہان، حمدان اور ارومیہ میں بھی ہوئے۔ امکان کم ہے کہ ان مظاہروں میں تسلسل رہے کیونکہ پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہروں کو ایرانی حکومت نے شدید انداز میں کچل دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
برطانوی سفیر کی تہران میں گرفتاری و رہائی
ایرانی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق سفیر کی گرفتاری مظاہروں میں مبینہ شرکت کا نتیجہ تھی۔ ایرانی دارالحکومت تہران میں متعین برطانوی سفیر راب میک ایئر نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے مظاہرے میں قطعاً شریک نہیں تھے۔ سفیر کے مطابق وہ یونیورسٹی کے باہر یوکرائنی مسافروں کے لیے ہونے والے دعائیہ تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
تصویر: gov.uk
یوکرائنی طیارے کے مسافروں کی یاد
جس مسافر طیارے کو غلطی سے مار گرایا گیا تھا، اُس میں امیر کبیر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ بھی سوار تھے۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے مظاہرے کے دوران اُن کی ناگہانی موت پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
سابق طلبہ کی یاد میں شمعیں جلائی گئیں
تہران کی امیرکبیر یونیورسٹی کے طلبہ نے یوکرائنی ہوائی جہاز میں مرنے والے سابقہ طلبہ اور دیگر ہلاک ہونے والے ایرانی مسافروں کی یاد میں یونیورسٹی کے اندر شمعیں جلائیں۔ یوکرائنی مسافر بردار طیارے پر نوے سے زائد ایرانی مسافر سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مہدی کروبی کا مطالبہ
ایران کے اہم اپوزیشن رہنما مہدی کروبی نے بھی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خامنہ ای یوکرائنی کمرشل ہوائی جہاز کی تباہی کے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کروبی ایران میں اصلاحات پسند گرین موومنٹ کے رہنما ہیں۔
تصویر: SahamNews
ڈونلڈ ٹرمپ اور ایرانی مظاہرین
ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران حکومت خبردار کیا ہے کہ وہ ان مظاہرین پر ظلم و جبر کرنے سے گریز کرے۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ بہادر ایرانی مظاہرین کے ساتھ ہیں جو کئی برسوں سے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق ایرانی حکومت پرامن مظاہرین کا قتل عام کر سکتی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ دنیا کی اس پر نظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہرے
گزشتہ برس نومبر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کئی بڑے ایرانی شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو سخت حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا تھا۔ یہ ایران میں چالیس سالہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے شدید مظاہرے تھے۔ بعض ذرائع اُن مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ بیان کرتے ہیں۔ تصویر میں استعمال کیے جانے والے کارتوس دکھائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
10 تصاویر1 | 10
حالانکہ ایرانی وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ ان مظاہروں کے دوران تقریباً 225 افراد مارے گئے۔ گیس کی قیمتوں میں 200 فیصد کے اضافے اور اس سے ہونے والی آمدنی کو ضرورت مند کنبوں پر خرچ کرنے کے، سرکاری میڈیا کی جانب سے، اعلان کے بعد یہ مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ جو ملک کے مختلف حصوں میں پھیل گئے تھے۔
اشتہار
بلیک لسٹ
امریکی ذرائع، جس میں ایک امریکی افسر اور اس معاملے سے واقف دو افراد شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف ان پابندیوں کے متعلق پچھلے کئی مہینوں سے غور و خوض کیا جا رہا تھا اور یہ تہران کے خلاف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے عائد کی جانے والی متعدد پابندیوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہوگی۔
امریکی ذرائع کا کہنا تھا کہ واشنگٹن، حکومت ایران کے خلاف مظاہرین کو قتل کرنے میں ملوث افراد کو بلیک لسٹ کردے گا۔ جب کہ دیگر ذرائع کے مطابق امریکا، ایران کے سرکاری اور سکیورٹی افسران کو نشانہ بنائے گا۔
تاہم متعدد ذرائع کا کہنا ہے کہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کے 20 جنوری کو عہدہ سنبھالنے سے قبل ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پابندیاں عائد کیے جانے کی ان میڈیا رپورٹوں پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ خیال رہے کہ بائیڈن نے گزشتہ ہفتے ہوئے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کو شکست دے دی ہے۔
ایران میں احتجاجی مظاہروں کی موبائل ویڈیو
01:41
جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ 2015 کے اس نیوکلیائی معاہدے کو بحال کردیں گے جسے صدر ٹرمپ نے دو سال قبل یک طرفہ طورپر ختم کر دیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے دو ہفتے قبل ایرانی پاسداران انقلاب کے القدس فورس کی مبینہ حمایت کرنے کے الزام میں ایرانی تیل سیکٹر کے کئی اداروں پر انسداد دہشت گردی اقدامات کے نام پر پابندیاں عائد کردی تھیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے 3 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل ایران کے خلاف جس طرح کی پابندیاں عائد کی ہیں انہیں منسوخ کرنا امریکا کے نئے صدر کے لیے دشوار طلب ہوگا۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔