امریکا کا شمالی کوریا کے ساتھ ’عملی سفارت کاری‘ کا فیصلہ
1 مئی 2021
امریکی صدر جو بائیڈن شمالی کوریا کے ساتھ ’بڑی سودے بازی‘ کی حکمت عملی کے بجائے پیونگ یانگ کے جوہری پروگرام سے متعلق ’حقیقت پسندانہ رویہ‘ اپنانے اور ’عملی سفارت کاری‘ کو ترجیح دیں گے۔
اشتہار
وائٹ ہاؤس نے 30 اپریل جمعے کی شام کہا کہ صدر جو بائیڈن شمالی کوریا کے جوہری پروگرام سے متعلق ایک ایسے ’نپے تلے عملی رویے کے حق میں ہیں جس میں کھلا پن ہو اور اس کے لیے وہ سفارت کاری کا راستہ‘ تلاش کریں گے۔
صدر بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی وائٹ ہاؤس نے شمالی کوریا سے متعلق اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا شروع کر دیا تھا۔ یہ نیا بیان اس جائزے کی تکمیل کے بعد جاری کیا گيا۔ صدر بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران شمالی کوریا سے متعلق اپنے پیش رو صدر ٹرمپ سے مختلف پالیسی اپنانے کا وعدہ کیا تھا۔
صدر بائیڈن کی پریس سیکرٹری جَین ساکی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا، ’’ہمارا بھی ہدف جزیرہ نما کوریا کو مکمل طور پر جوہری ہتھیاروں سے پاک رکھنا ہے۔‘‘
’بہت بڑے عزائم‘ ترک کر دینے کا فیصلہ
ابھی یہ واضح نہیں کہ امریکا شمالی کوریا کے ساتھ کس طرح کی سفارت کاری کا راستہ اپنانا چاہتا ہے تاہم جَین ساکی کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ امریکا نے واشنگٹن میں ملک کی سابق انتظامیہ سے کئی سبق سیکھے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کی تین ملاقاتیں
امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر گزشتہ تقریباً ایک سال میں تین مرتبہ آپس میں ملاقات کر چکے ہیں۔ ان میں سے پہلی ملاقات سنگاپور، دوسری ہنوئے اور تیسری جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency
شمالی کوریائی سرزمین پر پہنچنے والے پہلے امریکی صدر
تیس جون 2019ء کو ہونے والی یہ ملاقات اس لیے بھی ایک تاریخی واقعہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ یوں ایسے پہلے امریکی صدر بن گئے، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں ہی شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ ٹرمپ سیئول سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس ملاقات کے مقام پر پہنچے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
پانمنجوم میں شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شمالی کوریائی لیڈر کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی حدود میں خیر مقدم کیا اور پھر انہیں لے کر اپنے ملک میں داخل ہو گئے۔ اس تصویر میں ٹرمپ کو شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency
شاندار بہترین تعلقات
جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں پانمنجوم کے مقام پر ہونے والی اس ملاقات کے بعد کم جونگ اُن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کے ساتھ تعلقات کو شاندار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ انہی تعلقات کی بدولت مختلف امور سے متعلق پائی جانے والی مشکلات اور رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکے گا۔
تصویر: AFP/Getty Images/B. Smialowski
حیران کن ملاقات کی دعوت
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جزیرہ نما کوریا کو منقسم کرنے والی اس حد کو عبور کرنا اُؑن کے لیے ایک اعزاز ہے اور یہ تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب ایک بڑا قدم بھی ہو گا۔ انہوں نے اس ملاقات کو بہترین دوستی سے بھی تعبیر کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Smialowski
دوسری ملاقات: ویتنامی دارالحکومت ہنوئے میں
امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کی دوسری ملاقات کی میزبانی ویتنام کو حاصل ہوئی۔ دونوں لیڈروں کے قیام اور ملاقات کے مقام کے لیے انتہائی سخت اور غیر معمولی سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ کم جونگ اُن حسب معمول بذریعہ ٹرین ویتنام پہنچے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Vucci
ہنوئے سمٹ بے نتیجہ رہی
ٹرمپ اور اُن کی ہنوئے میں ملاقات ناکام ہو گئی تھی۔ اس ملاقات میں شمالی کوریائی لیڈر نے اپنے ملک کے خلاف عائد مختلف پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ پابندیاں فوری طور پر امریکی صدر ختم نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان میں سے بیشتر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی طرف سے لگائی گئی تھیں۔
تصویر: Reuters/L. Millis
سنگاپور سمٹ
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کے درمیان سنگاپور میں ہونے والی پہلی ملاقات تو ایک بار اپنی منسوخی کے بھی بہت قریب پہنچ گئی تھی۔ پھر دونوں لیڈروں کے رابطوں سے یہ ممکن ہوئی۔ یہ ملاقات بارہ جون سن 2018 کو ہوئی تھی۔ کسی بھی امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wallace
سنگاپور سمٹ: مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
امریکی صدر اور شمالی کوریا کے لیڈر کے درمیان سنگاپور ملاقات کے بعد دوطرفہ تعلقات اور معاملات کو بہتر بنانے کی یادداشت پر دستخط بھی کیے گئے تھے۔ یادداشت کی اس دستاویز کا تبادلہ پیچھے کھڑے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور شمالی کوریائی خاتون اہلکار کے درمیان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Ministry of Communications
8 تصاویر1 | 8
جَین ساکی کا کہنا تھا کہ واشنگٹن ’کسی گرینڈ سودے بازی کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے پر توجہ نہیں دے گا‘۔ اس بات سے ان کا اشارہ بظاہر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس پالیسی کی جانب تھا جس میں انہوں نے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ ان سے ملاقات کے بعد ایک ’بڑا معاہدہ‘ کرنے کا ذکر کیا تھا۔
جَین ساکی کا تاہم کہنا تھا کہ وائٹ ہاؤس باراک اوباما کے دور کے ’اسٹریٹیجک صبر‘ کے نتیجے میں مزید کشیدگی کا باعث بننے والے حالات سے بھی گریز کرے گا۔
اشتہار
بائیڈن سے قبل امریکی پالیسی کیا تھی؟
صدر ٹرمپ اپنی خارجہ پالیسی کی میراث کو مستحکم کرنے کے لیے شمالی کوریا کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے کی کوشش میں تھے اور اسی لیے وہ پیونگ یانگ کی طرف سے میزائل تجربات کو نظر انداز بھی کر دیتے تھے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان کے مابین دو بار ملاقات بھی ہوئی تھی۔ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے لیڈر سے دوستی کی کاوشیں بھی کیں تاہم اس کے باوجود وہ کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہے تھے۔
ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کارٹونسٹوں کے ’پسندیدہ شکار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کِم جونگ اُن ایک دوسرے کو جوہری حملوں کی دھمکیاں دیتے ہوئے خوف اور دہشت پھیلا رہے ہیں لیکن کارٹونسٹ ان دونوں شخصیات کے مضحکہ خیز پہلو سامنے لا رہے ہیں۔
تصویر: DW/Gado
’میرا ایٹمی بٹن تم سے بھی بڑا ہے‘
بالکل بچوں کی طرح لڑتے ہوئے شمالی کوریا کے رہنما نے کہا کہ ایٹمی ہتھیار چلانے والا بٹن ان کی میز پر لگا ہوا ہے۔ جواب میں ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے پاس بھی ایک ایٹمی بٹن ہے اور وہ تمہارے بٹن سے بڑا ہے‘۔
تصویر: Harm Bengen
ہیئر اسٹائل کی لڑائی
دونوں رہنماؤں کے ہیئر اسٹائل منفرد ہیں اور اگر ایک راکٹ پر سنہری اور دوسرے پر سیاہ بال لگائے جائیں تو کسی کو بھی یہ جاننے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی کہ ان دونوں راکٹوں سے مراد کون سی شخصیات ہیں۔
تصویر: DW/S. Elkin
اگر ملاقات ہو
اگر دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہو تو سب سے پہلے یہ ایک دوسرے سے یہی پوچھیں گے، ’’تمہارا دماغ تو صحیح کام کر رہا ہے نا؟ تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو؟‘‘
تصویر: A. B. Aminu
ماحول کو بدبودار بناتے ہوئے
اس کارٹونسٹ کی نظر میں یہ دونوں رہنما کسی اسکول کے ان لڑکوں جیسے ہیں، جو ماحول کو بدبودار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے شرط لگا لیتے ہیں۔
تصویر: tooonpool.com/Marian Kamensky
4 تصاویر1 | 4
آخری بار دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت اکتوبر 2019 میں سویڈن میں ہوئی تھی۔ تاہم شمالی کوریائی نمائندے امریکی پابندیوں پر مایوسی کی وجہ سے امریکی سفارت کاروں کے ساتھ بات چیت کے دوران ہی مذاکرات کی میز سے اٹھ کر چلے گئے تھے۔
اس کے برعکس صدر اوباما کی پالیسی کے بیک وقت دو پہلو تھے۔ وہ اچھی پیش رفت کے لیے بات چیت کے تمام دروازے کھلے رکھنے کے حق میں تھے مگر ساتھ ہی شمالی کوریا کے برے رویے پر اس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کے بھی حامی تھے۔
اس کے برعکس صدر بائیڈن اس معاملے میں کم جونگ ان سے براہ راست تعلقات بڑھانے کے بجائے جاپان اور جنوبی کوریا جیسے امریکی اتحادیوں سے زیادہ سے زیادہ صلاح و مشورہ کرنے کے حق میں ہیں۔ جنوبی کوریائی صدر مون جے ان اسی ماہ امریکا کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اس سے قبل انہوں نے جو بائیڈن پر جوہری امور سے متعلق شمالی کوریا کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے پر بھی زور دیا تھا۔