1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کا طالبان کے خلاف افغان فورسز کی مدد کا وعدہ

26 جولائی 2021

امریکی جنرل نے یہ بتانے سے انکار کیا کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد بھی طالبان کے خلاف فضائی حملے جاری رہیں گے یا نہیں تاہم  حمایت جاری رکھنے کا وعدہ ضرور کیا ہے۔

Kabul, Afghanistan | General Kenneth McKenzie
تصویر: Sajjad Hussain/AFP/Getty Images

امریکی فوج کے ایک سینیئر افسر نے 25 جولائی اتوار کے روز کہا کہ آنے والے ہفتوں کے دوران امریکا طالبان کے خلاف بر سر پیکار افغان فورسز کی مدد کے لیے فضائی حملے جاری رکھے گا۔ تاہم فوجی افسر نے اس بات کی وضاحت کرنے سے گریز کیا کہ آیا اگست کے اختتام پر جب امریکی فوجی انخلاء مکمل ہو جائے گا اس کے بعد بھی فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رہے گا یا نہیں۔

افغانستان میں بیرونی افواج کے انخلا کے دوران ہی حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان معرکہ آرائی جاری ہے جس میں طالبان نے کافی پیش قدمی کر لی ہے۔ اس وقت ملک کے تقریباً نصف اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہے اور مغربی طاقتوں کو اب اس بات کی فکر لاحق ہے کہ کہیں طالبان حکومت پر فتح حاصل کر کے پھر سے اپنا پرانا اقتدار نہ تھوپ دیں۔

امریکا نے کیا کہا ہے؟

 امریکی جنرل کینتھ میکنزی نے کابل میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران اس بات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ کیا امریکا 31 اگست تک فوجی انخلا مکمل ہو نے کے بعد بھی طالبان کے خلاف اپنے فضائی حملے جاری رکھے گا یا نہیں۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مشن کے اختتام کے بعد بھی امریکا، ''افغان فورسز کی حمایت جاری رکھے گا، گرچہ یہ عموماً افق (فضا) سے ہو گی۔''

ان کا مزید کہنا تھا، ''امریکا نے گزشتہ کئی روز کے دوران افغان فورسز کی حمایت میں فضائی حملوں میں اضافہ کر دیا ہے اور اگر طالبان نے اپنے حملے جاری رکھے تو ہم آنے والے ہفتوں میں بھی اس اعلٰی سطح کی حمایت کو جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔''

جنرل میکنزی کا کہنا تھا آنے والے دن اور ہفتے یہ فیصلہ کرنے میں اہم ثابت ہوں گے کہ آیا افغان حکومت طالبان سے ملک کا دفاع کر سکتی ہے یا نہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''مجھے نہیں لگتا ہے کہ یہ راستہ آسان ہوگا، تاہم میں اس بیانیے پر بھی یقین نہیں رکھتا کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔''

تصویر: Ahmad Seir/AP/picture alliance

زمینی حالات کیا ہیں؟

جنوبی شہر قندھار کے مضافاتی علاقوں میں اتوار کے روز بھی شدید لڑائی جاری رہی جہاں گزشتہ ایک ماہ کے دوران لڑائی کے سبب تقریبا ً22 ہزار خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔  قندھار میں تقریباً سات لاکھ افراد رہتے ہیں جو ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے۔

سنہ 1996 سے 2001  کے دوران جب افغانستان میں طالبان کا اقتدار تھا اس وقت بھی قندھار طاقت کا اہم مرکز ہوا کرتا تھا۔ میکنزی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکی جنگی جہازوں نے حالیہ دنوں میں بھی قندھار کے علاقوں میں بمباری کی ہے۔

بعض انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جن علاقوں پر طالبان نے قبضہ کیا ہے وہاں وہ عام لوگوں پر ظلم و زیادتی کر رہے ہیں۔ تاہم طالبان نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔

ایچ آر ڈبلیو کی ایسو سی ایٹ ایشیا ڈائریکٹر پیٹریشیا گراس مین نے ایک بیان میں کہا، ''طالبان رہنماؤں نے کسی بھی طرح کی زیادتیوں کی ذمہ داری سے انکار کیا ہے، لیکن ان کے زیر اقتدار علاقوں میں ملک بدری، من مانی نظر بندیاں اور ہلاکتوں کے بڑھتے ہوئے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مقامی آبادی میں خوف و ہراس بڑھ رہا ہے۔''

 ض ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

افغان نوجوان مستقبل کے حوالے سے پریشان

02:50

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں