1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا کا عراق میں اپنا جنگی مشن ختم کرنے کا اعلان

27 جولائی 2021

امریکی صدر جو بائیڈن نے اس برس کے اواخر تک عراق میں امریکی عسکری مشن کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم امریکا انسداد دہشت گردی سے متعلق اپنا تعاون جاری رکھے گا۔ 

USA I Joe Biden und Mustafa al-Kadhimi
تصویر: Susan Walsh/AP/picture alliance

امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ اس برس کے اواخر تک امریکا عراق میں بھی اپنا جنگی مشن ختم کر دے گا جس کے بعد لڑائی میں حصہ لینے کے بجائے امریکا عراقی سکیورٹی فورسز کو صرف تربیت اور صلاح و مشورہ فراہم کرے گا۔

 پیر  26 جولائی کو وائٹ ہاؤس میں عراقی وزیر اعظم مصطفی القدیمی سے ملاقات کے بعد جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ عراق میں اب بھی موجود 2500 امریکی فوجیوں کے لیے، ''یہ ایک نیا مرحلہ'' ہوگا۔ انہوں نے کہا، ''عراق میں اب ہمارا کردار... دستیابی، تربیت جاری رکھنے، امداد پہنچانے، مدد کرنے اور جب کبھی بھی اسلامک اسٹیٹ اپنا سر اٹھائے اس سے نمٹنا ہو گا، لیکن اس برس کے اواخر تک ہم لڑائی کے میدان میں نہیں ہوں گے۔'' 

عراق میں مبینہ اسلامی شدت پسند تنظیم داعش سے نمٹنے میں امریکی افواج نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ امریکا نے جس نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے اس میں عراق سے فوجی انخلا کی بات نہیں کی گئی ہے بلکہ وہ موجود رہے گی تاہم جنگی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بجائے عراقی فورسز کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ لاجیسٹکس اور صلاح و مشورہ فراہم کرے گی۔

اس اعلان سے قبل ہی پیر کے روز ایک سینیئر امریکی افسر نے بتایا تھا کہ امریکا عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اپنا جنگی مشن ختم کر رہا ہے اور اس برس کے اختتام تک اس کا رول محض ایک مشیر اور تربیت فراہم کرنے کا رہ جائے گا۔

عراقی وزیر اعظم پر شدید دباؤ

عراق میں سرگرم ایرانی حمایت یافتہ مسلح جنگجو گروپوں کا وزیر اعظم مصطفی القدیمی پر اس بات کا زبردست دباؤ رہا ہے کہ عراقی سر زمین پر امریکی افواج کی موجودگی جلد از جلد ختم ہونی چاہیے۔ عراق میں عام انتخابات سے تین ماہ قبل یہ اہم فیصلہ سامنے آیا ہے۔

تصویر: Susan Walsh/AP/picture alliance

عراق میں کئی سالوں کی جنگ، شورش، بدعنوانی اور غربت نے ملک کو تباہ کر دیا ہے۔ مناسب انفراسٹرکچر کی عدم دستیابی کے خلاف اکثر مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ بجلی کا بار بار جانا معمول کی بات ہے اور ایک ایسے وقت جب موسم گرما میں گرمی کی شدید لہر جاری ہے زندگی بدتر ہو کر رہ گئی ہے۔

عراق میں سیاسی حلقے اس فیصلے کو وزیر اعظم القدیمی کی ان کوششوں کے حصہ مانتے جس کی مدد سے وہ تہران حامی گروپوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے گروپ عراق میں امریکی مفادات پر بھی حملے کرتے رہے ہیں تاہم امریکا نے جوابی کارروائی میں انہیں بھی کافی نقصان پہنچایا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ عراق پر ایران کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے اس لیے بائیڈن انتظامیہ عراق کو پوری طرح سے چھوڑ نہیں سکتی۔  واشنگٹن انسٹیٹیوٹ تھنک ٹینک سے وابستہ حامدی مالک کا کہنا تھا، ''ایسا نہیں لگتا ہے کہ عراق میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کوئی ڈرامائی کمی آنے والی ہے۔''

بعض ماہرین کے مطابق وائٹ ہاؤس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات سے بغیر کسی حقیقی تبدیلی کے یہ دکھانا مقصود تھا کہ گھریلو سطح پر مصطفی القدیمی کی پوزیشن بہتر ہے۔

تصویر: Iraqi Prime Ministry Press Office/AA/picture alliance

عراق کو اب بھی خطرات لاحق ہیں

امریکا نے عراق میں اپنی عسکری سرگرمیوں کو بند کرنے کا اعلان ایک ایسے وقت کیا ہے جب افغانستان میں جاری بیس سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے مکمل فوجی انخلا کا عمل جاری ہے۔ تاہم مکمل انخلا سے قبل ہی طالبان جنگجوؤں نے کافی پیش قدمی کر لی ہے۔

 ایک سینیئر افسر کا کہنا تھا کا عراقی فوجی جنگی امتحان سے گزر چکے ہیں اور وہ اپنے ملک کا دفاع کر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم القدیمی بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ عراقی فورسز بذات خود ملک کی سکیورٹی سنبھالنے کے لائق ہیں۔

تاہم ماہرین کے مطابق اسلامک اسٹیٹ جیسی شدت پسند تنظیم خطے کے لیے اب بھی ایک شدید خطرہ بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی بغداد کے ایک بازار میں سڑک کنارے نصب ایک بم دھماکے میں 35 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

لوٹ کے مقتل دیکھوں!

02:08

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں