امریکا کا یہودی صدر: سینڈرز اور بلومبرگ روایت شکنی کے خواہاں
28 فروری 2020
امریکا میں آج تک کبھی کوئی یہودی سیاستدان صدر نہیں بنا۔ ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار بننے کے خواہش مند سینیٹر برنی سینڈرز اور ارب پتی بزنس مین بلومبرگ دونوں میں سے کوئی جیت گیا، تو امریکا میں پہلی بار ایسا بھی ہو جائے گا۔
اشتہار
ترقی پسند اور روشن خیال سیاسی اقدار کے حامی اور امریکی سینیٹ کے ڈیموکریٹ رکن برنی سینڈرز اسی سال ہونے والے صدارتی الیکشن میں اپنی پارٹی کے امیدوار بننے کے خواہش مند ہیں۔ وہ اب تک اس دوڑ میں شامل باقی تمام سیاستدانوں سے آگے ہیں۔
برنی سینڈرز کے علاوہ ارب پتی بزنس مین مائیکل بلومبرگ بھی صدارتی انتخابی دوڑ میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے اپنی بطور امیدوار نامزدگی کی خواہش رکھتے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے اگر ان دونوں میں سے ہی کسی کو اپنا انتخابی امیدوار بنایا، تو پھر اس کا مقابلہ ریپبلکن پارٹی کے امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہو گا، جو اپنے دوبارہ انتخاب کے خواہش مند ہیں۔
سینڈرز اور بلومبرگ دونوں ہم عمر
برنی سینڈرز کی عمر اس وقت 78 برس ہے اور مائیکل بلومبرگ بھی بالکل اتنی ہی عمر کے ہیں۔ ان دونوں ڈیموکریٹ سیاستدانوں کی سیاسی سوچ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو ان میں ایک ہی سیاسی جماعت کے ارکان ہونے کے باوجود کئی طرح کا فرق بھی موجود ہے۔ لیکن سینڈرز اور بلومبرگ میں ایک قدر مشترک ایسی بھی ہے، جس کی وجہ سے ان دونوں کو ایک دوسرے کے بہت قریب بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
وہ قدر مشرک یہ ہے کہ مذہبی حوالے سے یہ دونوں امریکی سیاستدان یہودی ہیں۔ امریکا کی تاریخ میں آج تک ایسا کبھی نہیں ہو سکا کہ صدارتی الیکشن میں کسی ایسے رہنما کو منتخب کیا گیا ہو، جو یہودی ہو۔ لیکن برنی سینڈرز اور مائیکل بلومبرگ کی کوشش یہ ہے کہ اس مرتبہ ایسا بھی ہو ہی جانا چاہیے۔
اس کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کو ان دونوں میں سے کسی ایک کو اپنا صدارتی امیدوار بنانا ہو گا اور پھر اس امیدوار کے لیے لازمی ہو گا کہ وہ ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب کا راستہ روکتے ہوئے اتنی زیادہ عوامی تائید حاصل کر لے کہ امریکا کو ایک بار پھر ایک ڈیموکریٹ صدر مل جائے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک یہودی صدر بھی۔
ناقدین کی رائے میں ان دونوں سیاستدانوں کی بہت سی مثبت خصوصیات کے ساتھ ساتھ چند ایک خامیاں بھی ہیں۔ ان کے ناقد ان کے سیاسی قد کاٹھ پر یہ کہہ کر تنقید کرتے ہیں کہ مثلاﹰ برنی سینڈرز ایک ڈیموکریٹ ہونے کے باوجود دراصل ایک ڈیموکریٹ سوشلسٹ ہیں۔
دوسری طرف مائیکل بلومبرگ کے مخالفین ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اس ارب پتی رہنما نے دراصل اپنی دولت کے بل بوتے پر ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدواری کی دوڑ میں اپنے لیے جگہ 'خریدی‘ ہے۔
امریکا کا نیا صدر کون ہو گا؟
امریکا کے 58 ویں صدارتی انتخابات میں ووٹرز کی ایک بڑی تعداد اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر رہی ہے۔ اس الیکشن میں امریکا کے 45 ویں صدر اور 48 ویں نائب صدر کا انتخاب کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Taylor
مقابلہ سخت
امریکا کے صدارتی الیکشن کے دوران ری پبلکن اور ڈیموکریٹ امیدواروں کے مابین سخت مقابلے کی توقع ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/J. Taylor
کلنٹن کی مہم
امریکا میں آٹھ نومبر کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کا پلڑا بھاری دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Swensen
تاریخی روایت
امریکی صدارتی انتخابات ہر چار سال بعد نومبر کے پہلے ہفتے میں منگل کے روز ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ 1845ء سے جاری ہے۔
تصویر: Reuters/R. Hill
نتائج کا انتظار
امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج منگل کی رات ہی آنا شروع ہو جائیں گے جبکہ بدھ کی صبح تک صورتحال واضح ہو جائے گی کہ کون جیتے گا۔
تصویر: Reuters/M. Anzuoni
ٹرمپ کے خلاف
جائزوں کے مطابق امریکا میں مقیم Hispanic ووٹرز کی طرف سے ووٹ ڈالنے کی شرح اس مرتبہ زیادہ رہے گی، جو ٹرمپ کے مخالف قرار دیے جا رہے ہیں۔
تصویر: DW/M. Knigge
مصروفیت بھی
امریکا میں صدارتی انتخاب کے دن عام تعطیل نہیں ہوتی ہے، اس لیے روزمرہ کی زندگی بھی جاری رہتی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Mostoller
انتظار کب ختم ہو گا؟
جب تک امریکا بھر میں پولنگ ختم نہیں ہوتی، تب تک سرکاری جائزے بھی عام نہیں کیے جاتے۔ زیادہ تر امریکی ریاستوں میں عالمی وقت کے مطابق شب بارہ بجے تک پولنگ جاری رہتی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Mostoller
کلنٹن کی معمولی برتری
الیکشن کے شروع ہونے سے قبل جاری کردہ عوامی جائزوں کے مطابق ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن کو اپنے ری پبلکن حریف ڈونلڈ ٹرمپ پر چار پوائنٹس کی برتری حاصل تھی۔
تصویر: Reuters/D. Becker
چھ ٹائم زون
امریکا کی پچاس ریاستوں میں مختلف چھ ٹائم زونز میں پولنگ کا عمل مکمل ہو گا۔
تصویر: Reuters/C. Keane
لوگوں کی قطار
امریکی ووٹرز اس الیکشن میں امریکا کے 45 ویں صدر کا انتخاب کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Van Auken
ایک سو بیس ملین ووٹرز
توقع کی جا رہی ہے کہ اس الیکشن میں اس مرتبہ ایک سو بیس ملین سے زائد اہل ووٹرز اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Spink
سینٹ کے لیے بھی ووٹنگ
آٹھ نومبر کے دن امریکا میں سینٹ کی چونتیس نشستوں کے لیے بھی ووٹنگ منعقد کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Spink
ٹرمپ پرعزم
ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک اس بارے میں کوئی رائے نہیں دی ہے کہ وہ شکست کی صورت میں الیکشن کے نتائج کو قبول کر لیں گے۔
تصویر: Getty Images/J.J. Mitchell
کلنٹن فیورٹ
انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ہلیری کلنٹن امریکا کی پہلی خاتون صدر بننے کا اعزاز حاصل کر لیں گی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
14 تصاویر1 | 14
اسرائیل اور فلسطینیوں کے بارے میں رویہ
برنی سینڈرز خود کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ یہودیوں کی ایک ریاست کے طور پر اسرائیل کی حمایت تو کرتے ہیں مگر وہ اسرائیل کی ان پالیسیوں کے بھی خلاف ہیں، جو فلسطینیوں کے مصائب میں اضافہ کرتی ہیں۔ اپنے ایک حالیہ سیاسی مباحثے میں تو برنی سینڈرز نے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر شدید تنقید کرتے ہوئے انہیں ایک 'رجعت پسند نسل پرست‘ بھی قرار دے دیا تھا۔
سینڈرز کے برعکس مائیکل بلومبرگ کو امریکا میں ایک اعتدال پسند اور میانہ روی کا قائل سیاستدان سمجھا جاتا ہے اور وہ اسرائیل اور نیتن یاہو جیسے رہنماؤں پر اس طرح تنقید بھی نہیں کرتے جیسے کہ برنی سینڈرز۔
دو تہائی سے زیادہ امریکی یہودی ٹرمپ کے خلاف
جنوری میں کرائے گئے ایک گیلپ سروے کے نتائج کے مطابق امریکا کے یہودی ووٹروں میں سے دو تہائی سے زائد ریپبلکن صدر ٹرمپ کے خلاف ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی بھی یہودی صدارتی امیدوار آسانی سے امریکی صدارتی الیکشن جیت سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انتخابی فیصلہ امریکا کے تمام ووٹر مل کر کریں گے اور اس ملک میں یہودی ایک مذہبی اقلیت ہیں جبکہ اکثریتی آبادی مسیحی باشندوں کی ہے۔
پھر بھی کیا امریکا میں اس سال پہلی مرتبہ کسی یہودی سیاستدان کو صدر منتخب کر لیا جائے گا، ایسے کسی ممکنہ انتخابی نتیجے سے پہلے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی اپنا صدارتی امیدوار بناتی کس کو ہے: برنی سینڈرز اور مائیکل بلومبرگ میں سے کسی ایک کو یا پھر کسی تیسرے لیکن مسیحی عقیدے کے حامل سیاستدان کو۔
م م / ع س (اے ایف پی، اے پی)
ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار
امریکی صدارتی الیکشن کے 10 ریپبلکن امیدواروں کا ٹیلی وژن مباحثہ۔ انتخابی نعروں اور بیان بازیوں کا مقابلہ۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور جیب بُش مرکزی کردار۔
تصویر: Reuters/A.P. Bernstein
ڈونلڈ ٹرمپ۔ ایک منفرد پراپرٹی ڈیلر
ڈونلڈ ٹرمپ کی راہ میں آنے والا ہر خاص و عام مصائب میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اپنے اسکینڈلز کو فقرہ بازیوں سے ڈیل کر لینے والے ’فیئر گیم‘ سے نابلد ہیں۔ تارکین وطن، خاص طور سے لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والوں کے سخت مخالف ہیں۔ اپنے دس ارب ڈالر کے اثاثوں پر بہت کم ٹیکس ادا کرنے پر اُنہیں فخر ہے۔
تصویر: Getty Images/A. H. Walker
’’جیب2016ء‘‘ بُش کے بنا
جیب بُش اپنے والد جارج ہربرٹ والکر اور اپنے بڑے بھائی جارج ڈبلیو بُش کے سائے میں صدارتی امیدوار کی حیثیت سے اپنی مہم کا آغاز کر رہے ہیں۔ فلوریڈا کے سابق گورنرکے پاس تجربہ کار خاندانی نیٹ ورک بھی ہے اور انتخابی مہم چلانے کے لیے ایک پوری عمارت پر مشتمل دفتر بھی۔ 62 سالہ معتدل قدامت پسند جیب بُش پرانے امریکا کی بحالی چاہتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Raedle
اسکاٹ والکر۔ 100 فیصد ہارڈ لائنر
نام سے تو اسکوچ وسکی کا خیال آتا ہے تاہم اسکاٹ والکر وسکونسن کے گورنر ہیں۔ ایک اصلاحات پسند کے طور پر وہ وائٹ ہاؤس پہنچنا چاہتے ہیں۔ سماجی امور کے معاملات میں خود ریپبلکن حلقوں میں انہیں انتہائی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اسقاط حمل، ایمیگریشن اور ہم جنسوں کی شادیاں۔ یہ موضوعات اسکاٹ والکر کے ہاں شجر ممنوع ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Theiler
مایک ھکبی: میڈیا تجربہ کار اور بپٹسٹ کرسچین
ان میں اور ایک سابق امریکی صدر میں ایک قدر مشترک ہے۔ دونوں کا تعلق ایک ہی شہر سے ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہیں پتا ہے کہ یہ ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کو کیسے شکست دی جا سکتی ہے۔ آیا میڈیا کے شعبے کا تجربہ ان کی مدد کر سکے گا، یہ ایک کھلا سوال ہے؟ مایک ھکبی فوکس نیوز اور ABC ریڈیو کے شوز کی نظامت کیا کرتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Thew
بین کارسین۔ نیروسرجن
ایک ’’جیتے جاگتے لیجنڈ‘‘۔ تاہم یہ کوئی سیاسی اعزاز نہیں، کانگریس لائبریری نے اس نامور سرجن کو اس خطاب سے نوازا ہے۔ کیا یہ ممتاز ڈاکٹر ایک اچھے امریکی صدر بھی بن سکیں گے؟ اس انتخابی مہم کے دوران وہ خود اپنی سب سے بڑی کمزوری بنے ہوئے ہیں۔ وہ ہم جنس پرستی، مدت قید اور ، مردوں کے جیلوں میں ہم جنس پرست ہو جانے جیسے موضوعات پر نہایت مبہم موقف رکھتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
ٹیڈ کروز۔ ہر بات میں ’نہیں‘ کہنے والے
اسقاط حمل، ہیلتھ انشورنس پالیسیوں میں اصلاحات، ہم جنس پرستوں کی شادی، ٹیکس معاملات میں بہتری، ہر بات میں وہ نہیں ہی کہا کرتے ہیں۔ تاہم ایک معاملے میں وہ حقیقت گوئی سے کام لیتے ہیں اور وہ ہے قدامت پسند انجیلی مسیحی امریکی باشندوں کے بارے میں۔ ان کی جڑیں کیوبا سے ملتی ہیں اس کے باوجود یہ سماجی امور میں سخت موقف رکھتے ہیں۔ تاہم ایمیگریشن پالیسی میں یہ اعتدال پسند ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
مارکو روبیو۔ سب کے ڈارلنگ
امریکا میں بڑھتی ہوئی ہسپانک رائے دہندگان برادری ہو یا کلاسیکی ریپبلکن، یہاں تک کہ بنیاد پرست ٹی پارٹی کے حامی سب ہی مارکو روبیو کے شیدائی ہیں۔ فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے یہ سینیٹر امریکا میں اب تک غیر مقبول ہیں۔ کیا یہ آئندہ انتخابات میں ٹیوشن فیس یا ایمیگریشن پالیسی میں اصلاحات کے اوباما پوائنٹس کے ساتھ اسکور کر پائیں گے؟
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Richard Drew
رینڈ پاؤل۔ ہر کسی کے لیے آزادی
کیا ریپبلکن حلقوں میں ان کے دوست پائے جاتے ہیں؟ یہ اپنی پارٹی کے اراکین پر تنقید کیا کرتے ہیں۔ وہ طالبعلموں اور سیاہ فام افریقیوں کی۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کی تعیناتی کے بارے میں بڑے پیمانے پر کوائف اکھٹا کرنے اور دفاعی بجٹ میں اضافے کو رد کرنے والے رینڈ پاؤل حکومت سے شہریوں کی نجی زندگی سے دوری اختیار کرنے اور ہر کسی کو آزادی دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/D. Angerer
کرس کرسٹی۔ اعتدال پسند ہیوی ویٹ
عوام سے قریب اور مکالمت کے لیے ہمہ وقت تیار۔ پروسیکیوٹر کی حیثیت سے کرسٹی بہت سے سیاستدانوں کے دانت کھٹے کر دیتے ہیں۔ کرپشن کے خلاف لڑنے والے ماحولیاتی تبدیلیوں اور ایمیگریشن پالیسی میں نرمی جیسے موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کر کہ وہ اکثر اپنی پارٹی میں کھلبلی مچا دیتے ہیں۔ یہاں تک کے اُن کے اوور ویٹ ہونے پر بھی اکثر تنقید کی جاتی ہے۔ اس کے لیے بھی وہ گیسٹرک بینڈ کا استعمال کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A. Wong
جان کیسک
ان کے والدین کا تعلق کرشیا اور چیک جمہوریہ سے تھا۔ کیا اسی وجہ سے انہیں نیشنل ہیلتھ انشورنس کا اندازہ ہے اور یہ ’اوباما کیئر‘ کی حمایت کرتے ہیں؟ وگرنہ انہیں ریپبلکن مرکزی دھارے کی زد میں آئیں گے۔ ان کے اہداف: ایک ہلکی پھلکی ریاست، ایک متوازن قومی بجٹ۔ اس کی کوشش یہ بل کلنٹن کے دور میں بھی کرتے رہے ہیں۔