امریکا کورونا ویکسین کے لیے ڈبلیو ایچ او کا ساتھ نہیں دے گا
2 ستمبر 2020
ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ امریکا، عالمی ادارہ صحت کی قیادت والے کوویکس (COVAX)اتحاد میں شامل نہیں ہوگا جس کا مقصد کسی ممکنہ کورونا وائرس ویکسین کی تیاری اور اسے بڑے پیمانے پر تقسیم کرنا ہے۔
اشتہار
واشنگٹن کا کہنا ہے کہ امریکا کورونا وائرس کے لیے ویکسین کی تیاری اور اسے تقسیم کرنے کی کسی بھی بین الاقوامی کوششوں میں شامل نہیں ہوگا کیونکہ وہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) جیسی کسی کثیر فریقی گروپ تک خود کو محدود نہیں رکھنا چاہتا ہے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے وائٹ ہاوس کے ترجمان جڈ ڈیرے کے حوالے سے لکھا ہے”امریکا اس وائرس کی شکست کو یقینی بنانے کے لیے اپنے بین الاقوامی شرکاء کے ساتھ کام جاری رکھے گا لیکن ہم ایسی کثیر فریقی تنظیموں تک خود کو محدود رکھنا نہیں چاہتے جو بدعنوان عالمی ادارہ صحت اور چین کے زیر اثر ہوں۔"
ترجمان کا مزید کہنا تھا”ہمارے صدر کسی ایسی نئی ویکسین کی تیاری پر آنے والے اخراجات کے سلسلے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑیں گے جو امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے سیفٹی اور صلاحیت کے اعلی میعارات پر پورا اترتی ہو اور جو مکمل تجرباتی عمل سے گزرا ہو اور لوگوں کو زندگیاں بچاتا ہو۔"
خیال رہے کہ جہاں بعض ممالک کووڈ 19کے کسی بھی ممکنہ ویکسین کی حصولیابی کو یقینی بنانے کے لیے باہمی معاہدے کررہے ہیں وہیں ویکسین کی تیاری کے سلسلے میں ڈبلیو ایچ او، کولیشن فار اپیڈمک پریپیرڈنیس انوویشز اور ویکسین الائنس گاوی کی قیادت میں 150سے زائد ممالک ایک مشترکہ کوشش بھی کررہے ہیں۔
کووڈ 19ویکسین گلوبل ایکسس فیسلیٹی یا COVAX کو امریکا کے روایتی حلیف ممالک بشمو ل جاپان، یورپی یونین اور جرمنی کی حمایت حاصل ہے۔ اس پہل کے ذریعہ اس میں شامل ممالک ممکنہ ویکسین تک رسائی حاصل کرسکیں گے تاکہ جب کورونا کی عالمگیر وبا کا کوئی موثر حل دریافت ہوجائے تو دنیا کے بہت بڑے حصے کا احاطہ کیا جاسکے۔
اشتہار
تنگ نظر رویہ
بین الاقوامی اتحاد COVAX سے الگ رہنے کے امریکا کے فیصلے کی متعدد لوگوں نے نکتہ چینی کی ہے اور اسے عالمگیر وبا سے دوچار دنیا میں امریکا کی 'تنگ نظری‘ قرا ردیا ہے۔
امریکی رکن کانگریس ایمی بیرا، جوخودبھی پیشے سے ڈاکٹر ہیں، نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا”کوویکس میں شمولیت ویکسین تک امریکی رسائی کی ضمانت کے لیے ایک سادہ سا معاملہ ہے، خواہ کوئی بھی اسے پہلے تیار کرلے۔ الگ تھلگ رہنے کے رویے سے ویکسین کی حصولیابی سے امریکا کے محروم رہ جانے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔"
کورونا وائرس کے حوالے سے يوميہ بنيادوں پر منفی خبريں اور پيشرفت سامنے آ رہی ہيں تاہم دنيا بھر ميں معالج، محققين، سائنسدان، سياستدان، صحافی و ديگر شعبہ جات سے وابستہ افراد موجودہ بحران کو مات دينے کے ليے دن رات سرگرم ہيں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Ujetto
پاکستان ميں وائرس کی شدت ممکنہ طور پر کم
سائنسدان ڈاکٹر عطا الرحمن نے ايک مقامی صحافتی ادارے کو بتايا کہ پاکستان میں کورونا وائرس میں پائے جانے والے کروموزومز چین سے مختلف ہیں اور امکاناً ان کی شدت کم ہے۔ ان کے بقول يہ تحقیق کراچی کے جمیل الرحمان سینٹر فار جینومکس ریسرچ ميں کی گئی۔ اس کا عملی طور پر مطلب يہ نکل سکتا ہے کہ شايد بيماری کی شدت بھی کم ہو۔ مگر طبی ذرائع سے اس بارے ميں مزيد تحقيق و ضاحت درکار ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
مليريا کے خلاف کارآمد ادويات کی امريکی اتھارٹی سے منظوری
’امريکی فوڈ اينڈ ڈرگ ايڈمنسٹريشن‘ اتھارٹی (FDA) نے نئے کورونا وائرس کے چند مخصوص اور ہنگامی صورت حالوں ميں علاج کے ليے مليريا کے خلاف کارآمد دو مختلف ادويات کی منظوری دے دی ہے۔ انتيس مارچ کو سامنے آنے والی اس پيش رفت ميں ايف ڈے اے نے بتايا کہ کووڈ انيس کے علاج کے ليے chloroquine اور hydroxychloroquine پر تحقيق جاری ہے۔ امريکی صدر نے پچھلے ہفتے ان دو ادويات کو ’خدا کی طرف سے تحفہ‘ بھی قرار ديا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Julien
تحليق و تحقيق کا نتيجہ، سانس ميں مدد فراہم کرنے والا آلہ
فارمولا ون کی جرمن کار ساز کمپنی مرسڈيز نے ايک آلہ تيار کر ليا ہے، جو کووڈ انيس کے ان مريضوں کے ليے موزوں ثابت ہو گا جنہيں انتہائی نگہداشت درکار ہو۔ يہ يونيورسٹی کالج لندن کے اشتراک سے تيار کيا گيا۔ CPAP نامی يہ آلہ ناک اور منہ کے ذریعے آکسيجن پہنچاتا رہتا ہے اور مريض کے پھيپھڑوں ميں زيادہ آکسيجن جاتی ہے۔ توقع ہے کہ اس آلے ميں رد و بدل کے بعد وينٹيليٹرز کی شديد قلت کے مسئلے سے نمٹا جا سکے گا۔
تصویر: Universität Marburg/Martin Koch
کئی ملکوں ميں ويکسين کی آزمائش جاری
اگرچہ ماہرين بار بار دہرا رہے ہيں کہ وائرس کے انسداد کے ليے کسی ويکسين کی باقاعدہ منظوری و دستيابی ميں ايک سال سے زائد عرصہ لگ سکتا ہے، کئی ممالک ميں ويکسين کی آزمائش جاری ہے۔ ’جانسن اينڈ جانسن‘ کی جانب سے تيس مارچ کو بتايا گيا ہے کہ ويکسين کی انسانوں پر آزمائش ستمبر ميں شروع ہو گی اور کاميابی کی صورت ميں يہ آئندہ برس کے اوائل ميں دستياب ہو سکتی ہے۔ مارچ ميں کئی ممالک ميں ويکسين کی آزمائش جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Guan
مالی نقصانات کے ازالے کے ليے امدادی پيکج
ہر ملک اپنے وسائل کے مطابق امدادی سرگرمياں جاری رکھے ہوئے ہے۔ امريکا ميں متاثرہ کاروباروں کے ليے 2.2 کھرب ڈالر کے امدادی پيکج کی منظوری دی جا چکی ہے۔ جرمنی نے بھی لاک ڈاؤن کے باعث مالياتی نقصانات کے ازالے کے ليے ساڑھے سات سو بلين ڈالر کے ريسکيو پيکج پر اتفاق کر ليا ہے۔ پاکستان نے يوميہ اجرت پر کام کرنے والوں کو چار ماہ تک تین ہزار روپے ماہانہ دینے کے ليے دو سو ارب روپے کا پیکج منظور کر ليا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
ماحول پر مثبت اثر
کورونا وائرس کے باعث عالمی سطح پر متعارف کردہ بندشوں کے نتيجے ميں کئی بڑے شہروں ميں فضائی آلودگی ميں واضح کمی ديکھی گئی ہے۔ روم، ميلان، نئی دہلی، بارسلونا، پيرس، لندن لگ بھگ تمام ہی بڑے شہروں کی ہوا ميں پچھلے دو ہفتوں کے دوران نائٹروجن ڈائی آکسائڈ (NO2) کی مقدار ميں چوبيس تا چھتيس فيصد کمی نوٹ کی گئی۔ يہ اعداد و شمار ’يورپی انوائرمنٹ ايجنسی‘ (EEA) نے جاری کيے۔
تصویر: Reuters/ESA
چين ميں وبا بظاہر کنٹرول ميں
کورونا وائرس کی نئی قسم کے اولين کيسز چينی صوبہ ہوبے کے شہر ووہان ميں سامنے آئے تھے۔ سخت اقدامات اور قرنطينہ کی پاليسی رنگ لائی اور دو ڈھائی ماہ کی دقت کے بعد اب ووہان ميں عائد پابندياں آہستہ آہستہ اٹھائی جا رہی ہيں۔ چين ميں پچھلے قريب ايک ہفتے کے دوران مقامی سطح پر نئے کيسز بھی شاذ و نادر ہی ديکھے گئے۔ يوں سخت قرنطينہ کی پاليسی بظاہر با اثر رہی۔
تصویر: Getty Images/K. Frayer
جنوبی کوريا کی کامياب حکمت عملی
چند ہفتوں قبل چين کے بعد کورونا وائرس کے سب سے زيادہ کيسز جنوبی کوريا ميں تھے۔ تاہم آج پوری دنيا سيول حکومت کی تعريف کے پل باندھ رہی ہے کہ کس طرح اس ملک نے وبا پر کنٹرول کيا۔ پير تيس مارچ کو جنوبی کوريا ميں کووڈ انيس کے اٹھہتر کيسز سامنے آئے۔ جنوبی کوريا نے وسيع پيمانے پر ٹيسٹ کرائے، حتی کہ گاڑی چلانے والے بھی رک کر ٹيسٹ کرا سکتے تھے۔ يوں مريضوں کی شناخت اور پھر علاج ممکن ہو سکا۔
تصویر: Imago Images/Xinhua/Wang Jingqiang
صحت ياب ہونے والوں کی تعداد حوصلہ بخش
تيس مارچ تک دنيا بھر ميں ايک لاکھ چھپن ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس سے صحت ياب بھی ہو چکے ہيں۔ چين ميں صحت ياب ہونے والوں کی تعداد پچھتر ہزار سے زيادہ ہے۔ اسپين ميں لگ بھگ سترہ ہزار، ايران ميں چودہ ہزار، اٹلی ميں تيرہ ہزار سے زائد اور جرمنی ميں نو ہزار سے زائد افراد صحت ياب ہو چکے ہيں۔ جرمنی ميں شرح اموات اعشاريہ نصف سے بھی کم ہيں يعنی درست حکمت عملی با اثر ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/COMUNIDAD DE MADRID
9 تصاویر1 | 9
ایک اور صورت یہ ہوسکتی ہے کہ امریکا خود ہی اپنا ویکسین تیار کرلے اور اپنے شہریوں کے لیے بڑی مقدار میں اس کا ذخیرہ کرلے۔ لیکن
اس سے غریب اور کمزور ممالک کی پریشانیاں بڑھ جائیں گی اور اگر عالمی معیشت بحال نہیں ہوئی تو امریکی معیشت پر بھی اس کے سخت اثرات مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے ہی صدر ٹرمپ ڈبلیو ایچ او کی نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اس بین الاقوامی ایجنسی پر چین کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرنے اور وائرس کے بارے میں معلومات چھپانے کا الزام بھی لگایا تھا۔
اپریل میں ٹرمپ انتظامیہ نے اقو ام متحدہ کی اس ایجنسی کو دی جانے والی مالی امداد روک دی تھی اور بعد میں ڈبلیو ایچ او کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔جولائی میں امریکی انتظامیہ نے اپنے اس فیصلے سے ڈبلیو ایچ او کو مطلع کردیا تھا۔
ج ا/ ص ز (ایجنسیاں)
وبائی صورت حال میں زندگی گھر کی بالکونی تک محدود
نئےکورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا کے متعدد ممالک میں لوگوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندیاں عائد ہیں۔ ایسے میں لوگوں کی زندگی گھر کی چار دیواری سے بالکونی تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
اسٹیڈیم؟ ضرورت نہیں!
کروشیا کے موسیقار داوور کرمپوٹک کو اب ہزاروں تماشائیوں کے سامنے پرفارم کرنے کے لیے اسٹیڈیم جانےکی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ اپنے گھر کی بالکونی سے ہی سکسوفون بجا کر لوگوں کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران داوور یہاں روز باجا بجاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL/N. Pavletic
جرمنی میں میوزکل فلیش موبس
کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دوران گھروں کی بالکونی سے میوزکل کانسرٹس کے سلسلے کا آغاز اٹلی سے ہوا تھا اور پھر آہستہ آہستہ دیگر ممالک میں بھی موسیقاروں نے اپنے گھروں سے ہی فن کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ اس تصویر میں جرمن شہر فرائبرگ میں ’بارک آرکسٹرا‘ بیتھوفن کی مشہور دھن ‘Ode an Die Freude’ پیش کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Seeger
گھر میں بالکونی نہیں تو کھڑکی ہی صحیح
بیلجیم کی حکومت نے بھی عوام کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کی تاکیدکر رکھی ہے۔ ایسے میں وہ لوگ کیا کریں جن کے گھر میں بالکونی نہیں؟ وہ لوگ اپنے گھر کی کھڑکی کی چوکھٹ پر بیٹھ کر تازہ ہوا اور باہر کے مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Geron
بحری جہاز کی بالکونی
’اسپیکٹرم آف دی سی‘ نامی یہ کروز شپ ایک سال قبل جرمنی سے روانہ ہوا تھا، اب یہ آسٹریلیا پہنچ چکا ہے۔ تاہم کورونا وائرس کے خطرے کی وجہ سے یہ جہاز لنگر انداز نہیں کیا جا رہا۔ آن بورڈ مسافر اور عملہ جہاز کی بالکونی سے ہی سڈنی کی بندرگاہ کا نظارہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/C. Spencer
بڑی بالکونی، بڑا کام
یہ کسی ہالی ووڈ فلم کا سین نہیں بلکہ کھٹمنڈو میں ایک خاتون چھت پر کپڑے سکھا رہی ہے۔ نیپالی دارالحکومت میں بھی کورونا وائرس کی وجہ سے دو ہفتے سے لاک ڈاؤن نافذ ہے۔
تصویر: Imago Images/Zuma/P. Ranabhat
بالکونی پر حجامت
لبنان کے جنوبی علاقے حولا میں گھر کی بالکونی پر کھلی فضا میں مقامی حجام لوگوں کی حجامت کر رہے ہیں۔ خبردار، چہرے پر حفاظتی ماسک کا استعمال لازمی ہونا چاہیے!
تصویر: Reuters/A. Taher
سبزی خریدنا ہے، کوئی مسئلہ نہیں!
ان غیر معمولی حالات میں روزمرہ کی زندگی میں نت نئے طریقہ آزمائے جا رہے ہیں، لیکن اوپر گیلری سے تھیلا نیچے پھینک کر سبزی خریدنے سے تو آپ سب بخوب ہی واقف ہوں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A.-C. Poujoulat
بالکونی میں ورزش کرنا
فرانسیسی شہر بورڈو میں سباستیان مانکو ورزش سکھاتے ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران معمر افراد بھی تندرست رہ سکیں، اس لیے وہ چوراہے پر کھڑے ہو کر سب کو ورزش کرواتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Tucat
ایتھلیٹس بھی بالکونی میں ٹریننگ پر مجبور
جرمن ایتھلیٹ ہانس پیٹر نے ریو ڈی جنیرو میں منعقدہ پیرا اولمپکس میں دو سونے کے تمغے جیتے تھے۔ چھبیس برس قبل ایک حادثے میں وہ معذور ہو گئے تھے۔ کورونا کی وجہ سے وہ بھی اپنے گھر کی بالکون میں ہی تین پہیوں والی سائیکل پر ٹریننگ کر رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Fassbender
روف ٹاپ سوئمنگ پول
کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کے لیے قرنطینہ کی اس سے بہتر جگہ نہیں ہو سکتی، لیکن یہ عیش و عشرت ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یورپی ملک موناکو میں بالکونی کے ساتھ سوئمنگ پول والے ایک گھر کی قیمت تقریباﹰ تین ملین یورو تک ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Francois Ottonello
کورونا میں مزاح
کورونا وائرس کے خطرے سے تمام لوگ گھروں کے اندر موجود ہیں لیکن موسم بہار میں دھوپ سینکنے کے لیے یہ ڈھانچہ گھر کی بالکونی میں کھڑا ہے۔ جرمن شہر فرینکفرٹ آن دیر اودر میں ایک شہری کی اس تخلیق نے وبائی صورت حال میں بھی مزاح تلاش کر لیا۔