نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اقتدار سنبھالنے کے پہلے ہی دن امریکا کو آزاد تجارتی معاہدے ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی) سے نکال لیں گے۔ وہ اپنے اقتدار کے پہلے سو دنوں میں مزید کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
اشتہار
امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ویڈیو جاری کی ہے، جس میں انہوں نے اپنے ان منصوبوں کی تفصیلات بتائی ہیں، جنہیں وہ وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد ایک سو دنوں میں عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں۔ موجودہ امریکی صدر بیس جنوری کو اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے، جس کے بعد ٹرمپ باقاعدہ طور پر صدارت کے عہدے پر فائز ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا وہ دفتر میں آنے کے پہلے ہی دن صدارتی ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے امریکا کو ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ معاہدے سے مکمل طور پر نکال لیں گے۔ اپنی انتخابی مہم میں ٹرمپ مسلسل یہ کہتے آئے ہیں کہ وہ بارہ ملکوں کے اس تجارتی معاہدے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تھا کہ ملازمتوں کے حوالے سے یہ معاہدہ ایک ’تباہ کن‘ معاہدہ ہے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں ٹرمپ کا مزید کہنا تھا، ’’ٹی پی پی معاہدے کی بجائے ہم منصفانہ مذاکرات کریں گے، دو طرفہ تجارتی معاہدے کریں گے، جن سے ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور صنعتی افزائش کو امریکا میں پھیلنے دیں گے۔‘‘
باراک اوباما ابھی تک ٹی پی پی معاہدے کے شدید حامی رہے ہیں۔ اوباما اس معاہدے کے تحت امریکا اور ایشیائی ممالک کے مابین تجارتی رابطوں کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ تاہم زیادہ تر امریکی شہریوں کا خیال ہے کہ اس طرح کے معاہدوں کے تحت ملازمتوں کے مواقع بیرون ملک ہی پیدا ہوتے ہیں۔
ٹی پی پی کے علاوہ بھی نامزد امریکی صدر نے کئی موضوعات پر بات کی ہے لیکن واضح تفصیلات انہوں نے کسی کے بارے میں بھی فراہم نہیں کیں۔ انہوں نے توانائی کے شعبے میں ایسی پابندیاں ختم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، جن کی وجہ سے ملازمتیں اور پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے کوئلے سے بجلی کی پیداوار اور فریکنگ کے طریقہ ء کار کا حوالہ دیا۔ ان کے مطابق اس طرح کئی لاکھ امریکیوں کو روزگار ملے گا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مستقبل میں خفیہ ایجنسیوں کو سائبر حملوں کے خلاف کارروائی کرنے کے احکامات دیے جائیں گے۔ اسی طرح ہر حملے کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ یہ تفصیلات انہوں نے نہیں بتائیں کہ یہ سب کچھ کیسے کیا جائے گا؟
اسی طرح انہوں نے کہا کہ منسٹری آف لیبر ہر اس کیس کا از سر نو جائزہ لے گی، جس میں ویزے کا غلط استعمال کیا گیا ہو۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ آئندہ پانچ برس جو عہدیدار امریکی حکومت کے لیے کام کرنا چاہتا ہے، اسے کسی بھی لابی کے لیے کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اور ایسے کسی بھی عہدیدار کو کسی دوسرے ملک کے لیے زندگی بھر لابنگ کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’واشنگٹن میں اصلاحات لانے اور مڈل کلاس کی تعمیر کے لیے یہ چند اقدامات ہیں لیکن مزید کیے جائیں گے۔‘‘
’میکسیکو باڑ یا ٹرمپ کی دیوار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میکسیکو سے ملنے والی امریکی سرحد پر ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ ہو گا۔ کئی سالوں سے اس سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/J. L. Gonzalez
ٹرمپ کا تجربہ
اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا، ’’اپنی جنوبی سرحد پر میں ایک دیوار تعمیر کرنا چاہتا ہوں اور کوئی بھی مجھ سے بہتر دیواریں نہیں بنا سکتا۔ میں اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات میکسیکو سے حاصل کروں گا۔‘‘ بہرحال ابھی تک انہوں نے اونچی عمارتین اور ہوٹل ہی بنائے ہیں۔ ٹرمپ کے تارکین وطن سے متعلق دس نکاتی منصوبے میں اس دیوار کی تعمیر کو اوّلین ترجیح حاصل ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Torres
کام جاری ہے
امریکا اور میکسیکو کے مابین سرحد تقریباً تین ہزار دو سو کلومیٹر طویل ہے۔ ان میں سے گیارہ سو کلومیٹر پر پہلے ہی باڑ لگائی جا چکی ہے۔ یہ سرحد چار امریکی اور میکسیکو کی چھ ریاستوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ دشوار گزار راستوں کی وجہ سے ریاست نیو میکسیکو میں اس باڑ کی تعمیر کا کام ادھورا ہی رہ گیا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
حالات کے ہاتھوں مجبور
غیر قانونی طریقوں سے میکسیکو سے امریکا میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سالانہ بنتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق میکسیکو سے ہی ہوتا ہے۔ میکسیکو کے شہریوں کو بہت ہی کم امریکی ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ ایک بہتر زندگی کا خواب لے کر امریکا آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Zepeda
باڑ کی وجہ سے تقسیم
یہ خاندان باڑ کی وجہ سے تقسیم ہیں تاہم ایک دوسرے مصافحہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سے ان لوگوں کے جلد ہی ایک دوسرے سے ملنے کے امکانات بھی تقریباً ختم ہو گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/J. West
تعصب
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا،’’میکسیکو اپنے اُن شہریوں کو ادھر بھیجتا ہے، جو کسی کام کے نہیں اور نا ہی ان میں کوئی قابلیت ہے۔ یہاں مسائل کا شکار میکسیکن ہی آتے ہیں، جو منشیات فروش اور جرائم پیشہ ہونے کے علاوہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔‘‘ ٹرمپ ایسے تمام جرائم پیشہ افراد کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Bull
ریگستان، سرحد اور واپسی
میکسیکو کے بہت سے شہریوں کے لیے امریکا کا سفر اس باڑ پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ کچھ کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے جبکہ کچھ اس سرحد کو پار کرنے کی قیمت اپنی جان سے چکاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ سرحدی محافظین کی جانب سے میکسیکو میں فائرنگ کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ ایک ایسے واقعے میں میکسیکو کے چھ ایسے شہری ہلاک ہو گئے تھے، جو سرحد پار نہیں کرنا چاہتے تھے۔
تصویر: Reuters/D.A. Garcia
اپنا محافظ خود
یہ ایک امریکی کاشتکار جم چلٹن ہے، جو اس بندوق کے ساتھ اپنی زمین کی نگرانی کر رہا ہے۔ اس کا دو لاکھ مربع میٹر پر محیط یہ فارم میکسیکو کی سرحد کے پاس جنوب مشرقی ایریزونا میں واقع ہے۔ یہاں پر صرف یہ خار دار تار ہی لگی ہے۔ جم چلٹن خود ہی اپنا محافظ ہے اور اس دوران اسے کئی مرتبہ اپنی یہ شاٹ گن اٹھانی پڑی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F.J. Brown
عجب انداز میں اختتام
عام بول چال میں اس تقریباً ساڑھے بائیس کلومیٹر طویل باڑ کو ’تورتیا وال‘ کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔ ’تورتیا‘ میکسیکو کی ایک مخصوص قسم کی ایک روٹی کو کہا جاتا ہے۔ یہ باڑ سان ڈیاگو (کیلی فورنیا) اور بحرالکاہل کے درمیان نصب کی گئی ہے۔