امریکا: کیپیٹل ہل حملے میں پولیس افسر اور حملہ آور ہلاک
3 اپریل 2021
ایک شخص نے امریکی کانگریس کے قریب دو پولیس افسران پر اپنی کار چڑھا دی جس کے بعد اس شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعے میں زخمی ہونے والا ایک پولیس افسر بھی وفات پا گیا ہے۔
اشتہار
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں دو اپریل جمعے کے روز ایک شخص نے کیپیٹل ہل کے باہر رکاوٹوں کے پاس تعینات دو پولیس افسران پر اپنی کار چڑھا دی، جس کے بعد اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ یہ حملہ تقریبا اسی مقام کے پاس ہوا، جہاں سے چھ جنوری کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کیپیٹل ہل کی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔
اشتہار
حملہ کیسے ہوا؟
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کار کیپیٹل ہل کی عمارت کی حفاظت پر معمور دو پولیس افسران سے ٹکرا کر بیریئر سے ٹکرائی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ اس کے بعد مشتبہ شخص کار سے باہر آ کر ان کی جانب چاقو تان کر بڑھا اور تبھی پولیس نے اس شخص پر فائرنگ کی، جس کے بعد حملہ آور کی ہسپتال میں موت واقع ہو گئی۔
کار حملے میں زخمی ہونے والے دونوں پولیس اہلکاروں کو بھی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ایک افسر بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پا گیا۔ امریکی کیپیٹل پولیس کے کارگزار سربراہ یوگنندا پٹمین کا کہنا تھا، ’’بہت ہی بھاری دل سے میں یہ اعلان کر رہا ہوں کہ ہمارا ایک افسر بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا ہے۔‘‘
ہلاک ہونے والے پولیس افسر کی شناخت ولیم ایوان کے طور پر کی گئی ہے، جو گزشتہ اٹھارہ برسوں سے کیپیٹل ہل پولیس سے وابستہ تھے۔ پٹمین نے ایک بیان میں کہا، ’’برائے کرم افسر ایوان کے لیے دعا اور ان کے اہل خانہ کا خيال کریں۔‘‘
حملے سے متعلق جو ویڈیوز آن لائن پوسٹ کی گئی ہیں، ان میں ایک نیلی رنگ کی کار کو عمارت کے پاس ہی پولیس کی گاڑی کے ایک بیریئر اور محکمہ پولیس کی تفتیش والی ایک کار سے ٹکراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
کیا سیاست دانوں کو بھی کوئی خطرہ تھا؟
یہ واقعہ عمارت کے شمالی داخلی دروازے سے تقریبا 90 میٹر کے فاصلے پر پیش آيا، جس کا زیادہ تر استعمال سینیٹرز یا پھر کام کے دنوں میں دیگر عملہ کرتا ہے۔ ایسٹر کی تعطیلات کی وجہ سے کانگریس کا اجلاس نہیں ہو رہا تھا اور صدر بائیڈن بھی جمعے کو واشنگٹن میں نہیں تھے۔
جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اس حملے سے ان کا اور ان کی اہلیہ کا دل ٹوٹ گیا ہے، ’’امریکی کیپیٹل ہل کے قریب ایک چیک پوسٹ پر پرتشدد حملے کی خبر سن کر جل اور مجھے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ ہم اپنے پولیس افسر، ان کے اہل خانہ اور ہر اس شخص کو جو اس نقصان پر غمزدہ ہے، دلی تعزیت پیش کرتے ہیں۔‘‘
کانگریس کے دیگر سینیئر رہنماؤں نے بھی پولیس افسر کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تعزیت کی ہے جبکہ کانگریس کی اسپیکر نینسی پلوسی نے ان کے احترام میں عمارت پر لگے امریکی پرچم کو سر نگوں رکھنے کی ہدایت کی ہے۔
امریکی جمہوری تاریخ کا بدنما داغ، دنیا حیران
گزشتہ روز واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں نے ملکی کانگریس کی کیپیٹل ہل کہلانے والی عمارت پر دھاوا بول دیا تھا۔ یہ مشتعل افراد اس وقت اس عمارت میں گھس گئے تھے، جب وہاں کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب نکالے جانی والی ایک ریلی کے شرکاء سے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کا کہا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ ایک موقع پر وہ بھی کیپیٹل ہل میں ان کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ان کے الفاظ اور انداز انتہائی اشتعال انگیز تھا۔
تصویر: Roberto Schmidt/AFP/Getty Images
بعدازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے والے اپنے حامیوں سے گھر واپس چلے جانے کے لیے کہا۔ ٹرمپ نے ان افراد کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کے باوجود ان کے اس مشن کی پذیرائی بھی کی۔ یہ افراد ٹرمپ کی صدارتی انتخابات میں شکست پر احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: J. Scott Applewhite/AP Photo/picture alliance
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے امریکی پارلیمان کی عمارت کیپیٹل ہل پر دھاوے پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’یہ حملہ اس مقدس امریکی عمارت پر ہے، جو عوام کے لیے کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ احتجاج نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
تصویر: Manuel Balce Ceneta/AP Photo/picture alliance
اس بدامنی میں ملوث باون افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ اب اس عمارت کو مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا ہے۔ امریکی جمہوری تاریخ میں ایسا کوئی واقع پہلی مرتبہ پیش آیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے امریکی تاریخ کا ’برا ترین دن‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
سابق صدر باراک اوباما نے اس پرتشدد واقعے کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر عائد کرتے ہوئے کہا، ’’یہ ہماری قوم کے لیے بے عزتی اور بے شرمی کا لمحہ ہے۔‘‘
تصویر: Win McNamee/Getty Images
امریکا میں عنقریب اپنے عہدے سے رخصت ہونے والے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینکڑوں حامیوں کی طرف سے کیپیٹل ہل میں بدامنی کے واقعے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کرتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
تصویر: Andrew Harnik/AP Photo/picture alliance
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ ٹرمپ اور ان کے حامیوں کو ’جمہوریت کو پاؤں تلے کچلنے‘ کا عمل بند کر دینا چاہیے۔
تصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے امریکی کانگریس کی عمارت میں پیش آنے والے واقعات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی۔
تصویر: Win McNamee/Getty Images
اسی طرح یورپی یونین کے خارجہ امور کے نگران اعلیٰ ترین عہدیدار یوزیپ بورَیل نے کہا کہ امریکا ایسے واقعات جیسا تو نہیں ہے۔
تصویر: Andrew Caballero-Reynolds/AFP/Getty Images
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے بھی کیپیٹل ہل پر دھاوا بولے جانے پر صدمے کا اظہار کرتے ہوئے اس بدامنی کی مذمت کی۔
تصویر: Leah Millis/REUTERS
اس واقعے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ معمول کے مطابق اقتدار نو منتخب صدر جو بائیڈن کے حوالے کر دیں گے۔ تاہم انہوں نے ابھی تک گزشتہ روز کے واقعے کی مذمت نہیں کی۔
تصویر: Spencer Platt/Getty Images
12 تصاویر1 | 12
حملہ آور کون تھا؟
حملہ آور کی شناخت یا پھر اس حملے کی محرکات کیا ہو سکتے ہیں، اس بارے میں فوری طور پر کوئی بھی معلومات دستیاب نہیں ہو سکیں۔ تاہم پولیس نے بعد میں اتنا ضرور کہا کہ اب کوئی مزید ایسا خطرہ لاحق نہیں ہے۔ ڈی سی میں محکمہ پولیس کے سربراہ رابرٹ کونٹی کا کہنا تھا، ’’بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ یہ دہشت گردانہ حملہ تھا لیکن ظاہر ہے ہم اس کے ہر پہلو کی تفتیش جاری رکھیں گے۔‘‘
واشنگٹن میں ڈی ڈبلیو بیورو کی سربراہ اینس پول کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا، جب شہر جنوری کے حملے کے بعد دوبارہ بتدریج کھلنے کی تیاری میں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک مشتبہ شخص کے بارے میں ایسا کچھ بھی نہیں معلوم کہ آیا اس نے تن تنہا یہ حملہ کیا یا پھر دیگر ایسے مزید حملوں کا کوئی منصوبہ تھا۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ شہر الرٹ پر ہے۔
’ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دنیا بھر کی خواتین متحد‘
ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے پہلے روز اُن کے ناقدین نے دنیا بھر میں مظاہرے کیے ہیں، جن میں خواتین پیش پیش ہیں۔ ایک بہت بڑا مظاہرہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ہو رہا ہے، جس میں لاکھوں افراد بالخصوص خواتین شریک ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Caballero-Reynolds
خواتین کی کال
سب سے بڑا مظاہرہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں منعقد کیا جا رہا ہے، جس کی کال ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ نامی تحریک نے جاری کی۔ متعدد خواتین ٹرمپ پر اپنے خلاف جنسی حملوں کے الزامات لگا چکی ہیں جبکہ اسقاط حمل کے حوالے سے ٹرمپ کے کچھ بیانات بھی متنازعہ حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. L. Magana
’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘
’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ نامی تحریک کے منتظمین نے ملک بھر میں سوشل میڈیا پر عوام سے اس جلوس میں شرکت کے لیے اپیل جاری کی تھی۔ ان خواتین کے احتجاج کا مقصد اپنے اُن حقوق کا دفاع کرنا ہے، جنہیں وہ ٹرمپ کے ماضی کے بیانات اور مستقبل کی ممکنہ پالیسیوں کے تناظر میں خطرے میں دیکھ رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. L. Magana
سوشل میڈیا پر رابطہ کاری
جمعے کے روز تک ہی سوا دو لاکھ افراد نے واشنگٹن میں ہونے والے اس مظاہرے میں اپنی شرکت کی تصدیق کر دی تھی۔ اس احتجاجی مظاہرے میں بڑی تعداد میں امریکی شو بزنس سے تعلق رکھنے والے ستارے بھی شریک ہو رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. L. Magana
توقعات سے زیادہ تعداد
منتظمین کو توقع تھی کہ واشنگٹن میں اس مظاہرے میں دو لاکھ افراد شرکت کریں گے تاہم آخری خبریں آنے تک اس مظاہرے میں شریک افراد کی تعداد پانچ لاکھ سے بھی تجاوُز کر چکی تھی۔ خواتین خاص طور پر گلابی رنگ کی ٹوپیاں اور ملبوسات پہنے اس مظاہرے میں شرکت کر رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Ireland
خواتین کے ساتھ یک جہتی
واشنگٹن میں مظاہرہ کرنے والی خواتین کے ساتھ یک جہتی کے طور پر امریکا بھر کے تین سو شہروں میں ’سسٹرز مارچ‘ منظم کیے جا رہے ہیں۔ ان شہروں میں نیویارک، بوسٹن، لاس اینجلس اور سیئیٹل بھی شامل ہیں۔ ان امریکی خواتین کے ساتھ یک جہتی کا اظہار دنیا بھر کے تین سو شہروں میں بھی کیا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/R. Tivony
سڈنی میں بھی مظاہرہ
دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں کا آغاز ہفتے کی صبح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے ہوا تھا۔ بعد ازاں کئی یورپی شہروں بشمول برلن میں بھی مظاہرے منظم کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Rycroft
ویلنگٹن میں اجتماع
نیوزی لینڈ کے شہر ویلنگٹن میں بھی اکیس جنوری کے دن خواتین نے ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ نامی تحریک سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایک مظاہرے میں شرکت کی۔
تصویر: Reuters/J. Gimblett
فرانس میں ریلی
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں منعقد ہوئے ایک مظاہرے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ سردی کے باوجود یہ لوگ ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے ایفل ٹاور کے قریب جمع ہوئے۔
تصویر: Reuters/J. Naegelen
جنیوا میں اظہار یک جہتی
سوئٹزرلینڈ میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا۔ جنیوا میں ٹرمپ کے خلاف منعقد ہونے والے ایک مظاہرے کی تصویر۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Di Nolfi
لندن کی سڑکوں پر ریلی
دیگر یورپی ممالک کی طرح برطانوی دارالحکومت لندن میں بھی لوگوں کی ایک معقول تعداد سڑکوں پر نکلی اور ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا گیا۔
تصویر: Getty Images/D. Kitwood
’نسل پرستی نامنظور‘
لندن میں منعقد ہونے والے مظاہرے میں خواتیں نے ایسے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر درج تھا، ’ٹرمپ اور نسل پرستی نامنظور‘۔ جمعے کے روز ٹرمپ کی حلف برداری کے موقع پر واشنگٹن ہی میں پُر تشدد مظاہرے بھی ہوئے، جن کے دوران پولیس نے دو سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/empics/J. Stillwell
ہیلسنکی میں مظاہرہ
گزشتہ کئی عشروں میں کسی بھی امریکی صدر نے عوام کو اس حد تک تقسیم نہیں کیا، جتنا کہ جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ نے کر دیا ہے۔ فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی بھی ٹرمپ کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Nukari
برلن کا اجتماع
جرمن دارالحکومت برلن میں بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد نے مشہور زمانہ برانڈن برگ گیٹ پر ایک مظاہرے کا اہتمام کیا۔ ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ کے ساتھ اظہار یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے جرمن عوام نے ’برابری‘ کے حق میں نعرے بازی بھی کی۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
سپین کی بھی شرکت
’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ کی کال پر یورپی ملک اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں بھی ریلی نکالی گئی، جس کے دوران متعدد خواتین نے صنفی برابری اور مساوات کے حق میں نعرے بازی کی۔
تصویر: Reuters/S.Vera
بھارت میں بھی مظاہرہ
مغربی ممالک کی طرح بھارتی شہر کلکتہ میں بھی خواتین نے ایک مارچ کا اہتمام کیا۔ ’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ نے دنیا بھر میں بالخصوص خواتین سے اپیل کی تھی کہ وہ ان کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتے ہوئے ٹرمپ کے خلاف مظٰاہرے کریں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Das
ارجنٹائن تک گونج
’ویمنز مارچ آن واشنگٹن‘ کی اپیل پر ارجنٹائن کے دارالحکومت میں بھی خواتین سڑکوں پر نکلیں۔ بیونس آئرس میں منعقدہ ہوئی ایک ریلی میں خواتین نے امریکی صدر ٹرمپ کو مسترد کر دیا۔
تصویر: Reuters/M. Brindicci
16 تصاویر1 | 16
سکیورٹی کا سخت پہرہ
امریکی کیپیٹل پر گزشتہ جنوری میں ٹرمپ کے حامیوں نے، جس طرح کیپیٹل ہل پر دھاوا بولا تھا اس کی بازگشت اب بھی سنائی دے رہی تھی۔ اُس حملے میں ایک پولیس افسر سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اُس وقت سکیورٹی کے مقصد سے راستوں پر جو رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں انہیں بتدریج ہٹانے کا کام شروع کیا گيا تھا۔
اس واقعے کے بعد سے ہی سکیورٹی حکام بار بار یہ تنبیہ کرتے رہے ہیں کہ انتہائی دائیں بازو کے گروپوں اور ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کیپیٹل ہل پر حملے کے خدشات برقرار ہیں۔ اس تازہ واقعے کے بعد سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے مزید اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
ص ز/ ا ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)
پولیس تشدد کے خلاف غم وغصہ اب پوری دنیا میں پھیلتا ہوا