امریکا کی بات چیت شروع کرنے کے لیے ایران سے درخواست
8 جنوری 2019
ایک اعلیٰ ایرانی حکومتی اہلکار نے بتایا ہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔ ایرانی اہلکار نے یہ واضح نہیں کیا کہ امریکا کے کس سطح کے اہلکار نے ایران سے مذاکرات کی پیشکش آگے بڑھائی ہے۔
اشتہار
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے ایک انتہائی اہم مشیر علی شام خانی نے کہا ہے کہ امریکا نے ایران کے ساتھ بات چیت کے لیے رابطہ کیا تھا۔ شام خانی نے مزید واضح کیا کہ یہ رابطہ اُن کے ساتھ اُن کے افغانستان کے دورے کے دوران ہوا، جو گزشتہ برس دسمبر میں کیا گیا۔ انہوں نے اپنے اس بیان میں یہ واضح نہیں کیا کہ کس امریکی اہلکار نے امریکا اور ایران کے درمیان بات چیت شروع کرنے کی درخواست کی تھی۔
علی شام خانی ایرانی سپریم لیڈر کے قریبی مشیر ہونے کے علاوہ اُن کی تشکیل کی گئی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری بھی ہیں۔ انہوں نے نیوز ایجنسی تسنیم کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کابل میں قیام کے دوران بات چیت شروع کرنے کی امریکی درخواست موصول ہوئی تھی۔ علی شام خانی کا یہ بیان ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی تسنیم نے رپورٹ کیا ہے۔
دوسری جانب امریکی وزارت خارجہ کی ایک خاتون ترجمان نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ یہ رپورٹ مصدقہ قرار نہیں دی جا سکتی۔ اس خاتون ترجمان نے یہ ضرور واضح کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ قومی اور سکیورٹی معاملات پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے کھلی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس مئی سے امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی و تناؤ اُس وقت بڑھ گیا تھا، جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2015 کی جوہری ڈیل سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ اس علیحدگی کے بعد امریکا ایران پر کئی اقتصادی پابندیوں کا نفاذ کر چکا ہے۔ امریکا ان پابندیوں کے نفاذ کے بعد اس کوشش میں ہے کہ ایران کی خام تیل کی بین الاقوامی فروخت کو انتہائی محدود کر دیا جائے۔
یہ امر اہم ہے کہ امریکا کی جانب سے ایران پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ خلیج فارس کے خطے کے عرب ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے یمنی حوثی ملیشیا کو ہر طرح کی امداد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح واشنگٹن کا خیال ہے کہ امریکا عراقی شیعہ عسکری گروپوں کی حمایت کرنے کے علاوہ شام میں اسد حکومت کا حلیف ہے اور اس عمل سے وہ ایک طرف لبنان کی شیعہ انتہا پسند تنظیم حزب اللہ کو فعال کیے ہوئے ہے تو دوسری جانب اسرائیل مخالف پالیسی بھی اپنائے ہوئے ہے۔
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔