امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ ماہ ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی ڈیل سے دستبردار ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ اس تناظر میں یورپی ممالک تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
اشتہار
جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے قانون سازوں نے امریکی کانگریس پر زور دیا ہے کہ وہ ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والی جوہری ڈیل کو بچانے کی کوشش کریں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واشنگٹن کے اس ڈیل سے دستبردار ہو جانے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ اس بارے میں تین سوال اور تین جواب۔
سوال: ایرانی جوہری معاہدے کے حوالے سے یورپی ممالک کے ارکان پارلیمان نے امریکی کانگریس کو کیا پیغام دیا ہےِ؟
جواب: جرمنی، فرانس اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے تقریبا پانچ سو قانون سازوں کے مطابق اگر ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے پانے والی عالمی جوہری ڈیل ختم ہو جاتی ہے، تو اس کے نتیجے میں ایرانی جوہری پروگرام کی نگرانی کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے۔
یوں خطرات ہیں کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیوں میں اضافہ کرتے ہوئے ایٹمی ہتھیار سازی بھی کر سکتا ہے۔ اس تناظر میں یورپی سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے میں ایک نیا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
اس لیے ان قانون سازوں نے امریکی کانگریس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسے کسی بھی فیصلے سے باز رکھیں، جس کے نتیجے میں امریکا اس جوہری معاہدے سے دستبردار ہو سکے۔
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
سوال: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ڈیل سے دستبردار کیوں ہونا چاہتے ہیں؟
جواب: اگرچہ یورپی ممالک سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی اس ڈیل کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے تہران نے اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کیا ہے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نزدیک اس ڈیل میں ایران کو کافی رعایات دی گئی ہیں، جنہیں درست کرنا ضروری ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول یہ ڈیل امریکا کے حق میں نہیں ہے۔ یہ تو آپ کو یاد ہی ہو گا کہ یہ ڈیل سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور اقتدار میں طے پائی تھی، جن کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ اور صدر ٹرمپ کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے ہے۔ ری پبلکن ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے اس ڈیل کے لیے ایران کو کافی زیادہ چھوٹ دی تھی، جو مناسب نہیں تھی۔
موجودہ امریکی صدر نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی کہہ دیا تھا کہ ان کی انتظامیہ اس ڈیل سے دستبردار ہو جائے گی۔ اب آئندہ ماہ ممکنہ طور پر ٹرمپ اس حوالے سے باقاعدہ فیصلہ بھی سنا سکتے ہیں۔ دوسری طرف ٹرمپ کو اس حوالے سے بھی تنقید کا سامنا ہے کہ اگر وہ شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات کرنے کو تیار ہیں تو انہیں ایران سے کیا مسئلہ ہے۔
سوال: اس معاہدے کے بنیادی نکات کیا ہیں اور کیا ایران اس ڈیل پر عمل پیرا ہے؟
جواب: جی اس ڈیل کا بنیادی مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے باز رکھنا ہے۔ اس ڈیل سے پہلے عالمی برادری نے ایران پر پابندیاں عائد کر رکھی تھیں تاکہ وہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں کامیاب نہ ہو۔ لیکن ان پابندیوں کے باوجود تہران حکومت نے اپنی جوہری سرگرمیاں جاری رکھیں، یہ الگ بات کہ ایرانی معیشت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا۔
اس ڈیل کے تحت ایران نے عہد کیا تھا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کے ذریعے کوئی ایٹم بم بنانے کی کوشش نہیں کرے گا اور اس کے عوض عالمی برادری نے ایران پر عائد پابندیاں نرم کر دی تھیں یا انہیں ختم کر دیا گیا تھا۔
اب ایران اپنی جوہری سرگرمیوں کو محدود کر چکا ہے اور عالمی اداروں کے مطابق ایران اس ڈیل پر عمل پیرا بھی ہے۔ تاہم ایرانی حکومت نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر امریکا اس جوہری ڈیل کو ختم کرتا ہے تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
ایسا خدشہ بھی ہے کہ اس ڈیل کے خاتمے کے بعد ایران دوبارہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہو جائے، جس کی وجہ سے خطے میں عدم استحکام یقینی ہو گا۔
ایرانی انقلاب سے لے کر اب تک کے اہم واقعات، مختصر تاریخ
جنوری سن 1979 میں کئی ماہ تک جاری رہنے والی تحریک کے بعد ایرانی بادشاہ محمد رضا پہلوی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اب تک ایرانی تاریخ کے کچھ اہم واقعات پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: takhtejamshidcup
16 جنوری 1979
کئی ماہ تک جاری مظاہروں کے بعد امریکی حمایت یافتہ رضا پہلوی ایران چھوڑ کر چلے گئے۔ یکم فروری کے روز آیت اللہ خمینی واپس ایران پہنچے اور یکم اپریل سن 1979 کو اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AFP/G. Duval
4 نومبر 1979
اس روز خمینی کے حامی ایرانی طلبا نے تہران میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کر کے 52 امریکیوں کو یرغمال بنا لیا۔ طلبا کا یہ گروہ امریکا سے رضا پہلوی کی ایران واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان مغویوں کو 444 دن بعد اکیس جنوری سن 1981 کو رہائی ملی۔
تصویر: picture-alliance/AP Images/M. Lipchitz
22 ستمبر 1980
عراقی فوجوں نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ جنگ آٹھ برس تک جاری رہی اور کم از کم ایک ملین انسان ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کی کوششوں سے بیس اگست سن 1988 کے روز جنگ بندی عمل میں آئی۔
تصویر: picture-alliance/Bildarchiv
3 جون 1989
خمینی انتقال کر گئے اور ان کی جگہ علی خامنہ ای کو سپریم لیڈر بنا دیا گیا۔ خامنہ سن 1981 سے صدر کے عہدے پر براجمان تھے۔ صدر کا انتخاب نسبتا روشن خیال اکبر ہاشمی رفسنجانی نے جیتا اور وہ سن 1993 میں دوبارہ صدارتی انتخابات بھی جیت گئے۔ رفسنجانی نے بطور صدر زیادہ توجہ ایران عراق جنگ کے خاتمے کے بعد ملکی تعمیر نو پر دی۔
تصویر: Fararu.com
23 مئی 1997
رفسنجانی کے اصلاح پسند جانشین محمد خاتمی قدامت پسندوں کو شکست دے کر ملکی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دوبارہ سن 2001 دوسری مدت کے لیے بھی صدر منتخب ہوئے۔ انہی کے دور اقتدار میں ہزاروں ایرانی طلبا نے ملک میں سیکولر جمہوری اقدار کے لیے مظاہرے کیے۔ سن 1999 میں ہونے والے ان مظاہروں میں کئی طلبا ہلاک بھی ہوئے۔
تصویر: ISNA
29 جنوری 2002
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جونیئر نے ایران کو عراق اور شمالی کوریا کے ساتھ ’بدی کا محور‘ قرار دیا۔ امریکا نے ایران پر مکمل تجارتی اور اقتصادی پابندیاں سن 1995 ہی سے عائد کر رکھی تھیں۔
تصویر: Getty Images
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Fars
25 جون 2005
قدامت پسند سیاست دان محمود احمدی نژاد ایرانی صدر منتخب ہوئے۔ اگست میں انہوں نے کہا کہ ’اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے‘ اور انہی کے دور اقتدار میں ایرانی ایٹمی پروگرام تیزی سے بڑھایا گیا۔ سن 2009 میں وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے تو ملک گیر سطح پر اصلاح پسند ایرانیوں نے احتجاج شروع کیا جس کے بعد ایران میں ایک بحرانی صورت حال بھی پیدا ہوئی۔
تصویر: Reuters/Tima
جنوری 2016
خطے میں ایرانی حریف سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے جس کا سبب ایران کی جانب سے سعودی عرب میں شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیے جانے پر تنقید تھی۔ سعودی عرب نے ایران پر شام اور یمن سمیت عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کا الزام بھی عائد کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
19 مئی 2017
اصلاح پسند حلقوں اور نوجوانوں کی حمایت سے حسن روحانی دوبارہ ایرانی صدر منتخب ہوئے اور اسی برس نئے امریکی صدر ٹرمپ نے جوہری معاہدے کی ’تصدیق‘ سے انکار کیا۔ حسن روحانی پر اصلاحات کے وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا اور اٹھائیس دسمبر کو پر تشدد مظاہرے شروع ہو گئے جن میں اکیس ایرانی شہری ہلاک ہوئے۔