امریکا کے خلاف سازش، ٹرمپ کے سابق قریبی مشیر پر فرد جرم عائد
مقبول ملک اے ایف پی
30 اکتوبر 2017
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق قریبی رفیق پال مانافورٹ اور ان کے ایک کاروباری پارٹنر پر امریکا کے خلاف سازش اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔ مانافورٹ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سربراہ بھی رہے ہیں۔
اشتہار
امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے پیر تیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات کی مہم کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ انہیں مبینہ طور پر روس کی حمایت بھی حاصل رہی تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ ریپبلکن امیدوار ٹرمپ کی حریف ڈیموکریٹ خاتون امیدوار اور سابقہ خاتون اول ہلیری کلنٹن کی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے۔
اس بارے میں ٹرمپ اپنے اور اپنی انتخابی مہم کے عہدیداروں کے خلاف لگائے جانے والے تمام الزامات کی تردید کرتے آئے ہیں۔ لیکن امریکا میں اس معاملے کے بہت زیادہ پھیل جانے کے بعد گزشتہ برس کی صدارتی انتخابی مہم میں روس کی مبینہ مداخلت کی چھان بین کے لیے جو وسیع تر تفتیشی عمل شروع کیا گیا تھا، اب اس کا پہلا ٹھوس نتیجہ نکل آیا ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سابق سربراہ پال مانافورٹ اور ان کے ایک بزنس پارٹنر رِک گیٹس پر اب امریکا کے خلاف سازش اور کالے دھن کو سفید بنانے کے الزمات کے تحت باقاعدہ فرد جرم عائد کر دی گئی ہے۔
واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ پال مانافورٹ اور رِک گیٹس پر لگائے گئے الزامات میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر اس بیسیوں ملین ڈالر کی آمدنی کو چھپانے کی کوشش کی، جو انہوں نے یوکرائن کے سابق سیاستدان وکٹر یانوکووچ اور ان کی ماسکو نواز سیاسی جماعت کے لیے کام کرتے ہوئے کمائے تھے۔
روس اور ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے مابین مبینہ رابطوں سے متعلق چھان بین کے لیے امریکی محکمہ انصاف کے نامزد کردہ خصوصی اہلکار رابرٹ میولر نے پیر تیس اکتوبر کو واشنگٹن میں اعلان کیا کہ مانافورٹ اور گیٹس پر مجموعی طور پر 12 الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
یہ اپنی نوعیت کے وہ اولین الزامات ہیں، جو ٹرمپ کی انتخابی مہم کے سلسلے میں اس مہم کے اعلیٰ اہلکاروں اور روس کے مابین ان مبینہ رابطوں کے تناظر میں عائد کیے گئے ہیں، جن کا مقصد گزشتہ برس نومبر کے الیکشن کے نتائج کو ’ٹرمپ کے حق میں کرنا‘ تھا۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ان دونوں شخصیات پر جو فرد جرم عائد کی گئی ہے، اس میں مالیاتی نوعیت کی بےقاعدگیوں سے متعلق متعدد الزامات شامل ہیں۔ ان میں امریکا کے خلاف سازش کے علاوہ سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ مانافورٹ اور گیٹس نے غیر اعلان کردہ جو 75 ملین ڈالر سے زائد کمائے تھے، وہ کئی چھوٹی چھوٹی جزیرہ ریاستوں میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے امریکا لائے گئے۔ اس دوران صرف پال مانافورٹ نے مبینہ طور پر 18 ملین ڈالر سے زائد کی منی لانڈرنگ کی۔
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔