امریکا کے ذمے قرضوں کی مالیت اکیس ٹریلین ڈالر، خریدار کمیاب
مقبول ملک آنے شوَیٹ
23 مئی 2018
امریکا کے ذمے قرضوں کی مالیت اکیس ٹریلین ڈالر ہو چکی ہے اور امریکی بانڈز خریدنے میں یورپی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی اب کم تر ہے۔ اس کے علاوہ ان قرضوں کی مالیت میں پچیس ہزار ڈالر فی سیکنڈ کی شرح سے اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
اشتہار
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ پریشان کن ہے کہ امریکا کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جنہیں اپنی آبادی کے لحاظ سے فی کس بنیادوں پر اوسطاﹰ سب سے زیادہ عوامی قرضوں کا سامنا ہے اور یہ قرضے بہرحال کبھی نہ کبھی واپس کیے جانے ہیں۔
پچیس ہزار ڈالر فی سیکنڈ کی رفتار سے اضافہ
واشنگٹن حکومت کے ذمے واجب الادا قرضوں کی موجودہ مالیت 21 ٹریلین ڈالر بنتی ہے۔ اس کا مطلب ہے 210 کھرب یا 21 ہزار ارب ڈالر۔ یہی نہیں ان عوامی قرضوں کی مالیت میں ہر سیکنڈ بعد 25 ہزار ڈالر کا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
امریکی ریاست کے ذمے اتنے زیادہ قرضوں کو مالیاتی ماہرین ایک ایسا انتہائی اونچا پہاڑ قرار دیتے ہیں، جس کی بلندی ہر لمحہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ جس رفتار سے ان قرضوں کی مالیت بڑھتی جا رہی ہے، ماہرین کے نزدیک صرف دو سال بعد ان رقوم کی مجموعی مالیت میں سالانہ ایک ٹریلن یا 1000 ہزار ارب ڈالر کا اضافہ ہونے لگے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا امریکا کبھی اپنے ذمے یہ قرضے واپس کرنے کے قابل بھی رہے گا؟ اصولی طور پر اس کا جواب ہے، ہاں۔ اس لیے کہ اس کے لیے نئے ڈالر چھاپے جاتے ہیں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ امریکی حکومت کے جاری کردہ مالیاتی بانڈز خرید کر امریکی معیشت میں سرمایہ کاری کریں۔
اس طرح سرمایہ کاروں کو کچھ فائدہ سود کی شکل میں یعنی ٹریژری بانڈز پر منافع کے نام پر دیا جاتا ہے اور بانڈز کی فروخت سے حاصل کردہ رقوم سے قرضوں کا ایک حصہ واپس کر دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ خاص طور پر ان حالات میں کہ بظاہر امریکی معیشت کی حالت تو اچھی ہے لیکن یورپی سرمایہ کار پھر بھی امریکا کے سرکاری مالیاتی بانڈز کی منڈی میں اپنا سرمایہ لگانے میں اب زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔
یو ایس ایڈ کیا ہے؟
سال 2018 کی ابتدا میں امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی 25.5 ملین ڈالر کی عسکری امداد بند کر دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے قبل امریکا، اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بھی روک دینے کا اعلان کر چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/dpaweb
یو ایس ایڈ کیا ہے؟
سال 2018 کی ابتدا میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی 25.5 ملین ڈالر کی عسکری امداد بند کر دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے قبل امریکا، اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بھی روک دینے کا اعلان کر چکا ہے۔ یہ امریکی امداد کس طرح مدد کرتی ہے؟
تصویر: picture-alliance/Zuma
مالی وسائل کی تقسیم
امریکا کا غیر ملکی امداد کا سسٹم، فارن ایڈ ایکٹ 1961 کے ماتحت آتا ہے۔ اس ایکٹ کا مقصد امریکی حکومت کی جانب سے دنیا کے مختلف ممالک میں دی جانے والی مالی مدد کو بہتر طریقے سے نافذ کرنا ہے۔ امریکا میں اس مالی مدد کو ’وسائل کی دنیا کے ساتھ تقسیم‘ کہا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/KCNA
امریکا کتنی امداد دیتا ہے؟
چند حالیہ اندازوں کے مطابق امریکا کے وفاقی بجٹ کا کُل 1.3 فیصد حصہ امداد کی مد میں خرچ کیا جاتا ہے۔ تاہم کس شعبے میں کتنی مدد دی جاتی ہے اس تناسب میں ہر سال تبدیلی آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sedensky
امداد کس طرح خرچ کی جاتی ہے؟
سال 2015 کے ایک ڈیٹا کے مطابق، کُل امداد کا 38 فیصد حصہ طویل المدتی ترقیاتی معاونت کے لیے جاری کیا گیا۔ یہ امداد عام طور پر کمزور معیشت کے حامل غریب ممالک کے علاوہ صحت کے شعبے میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کو دی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Ponir Hossain
اقوام متحدہ کا حصہ
امریکی امداد کا کُل 15 فیصد حصہ ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرامز کے لیے مختص ہے۔ اس کے علاوہ 35 فیصد امداد عسکری اور دفاعی شعبوں کو، 16 فیصد انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر زلزلے، جنگ یا خشک سالی سے متاثرہ ممالک کو اور 11 فیصد سیاسی امداد کی مد میں دی جاتی ہے۔
تصویر: Picture alliance/Keystone/M. Girardin
کن ممالک میں امداد دی جا رہی ہے؟
دنیا کے دو سو سے زائد ممالک کو امریکی امداد دی جاتی ہے۔ سال 2015 کے ڈیٹا کے مطابق افغانستان، اسرائیل، مصر اور اردن کو بنیادی طور پر زیادہ امداد دی گئی۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ امداد افغانستان کو سکیورٹی کی مد میں جبکہ اسرائیل کو عسکری میدان میں دی گئی۔
تصویر: Reuters/M. Ismail
6 تصاویر1 | 6
ماہرین اقتصادیات کے مطابق جو سرمایہ کار کسی ملک کے ٹریژری بانڈز خریدتے ہیں، وہ دراصل اس ملک کے قرضوں کا کچھ حصہ اپنی سرمایہ کاری کے ذریعے خرید لیتے ہیں ۔ اب امریکا کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اپنے قرضوں کے لیے خریدار نہیں مل رہے اور ماہرین یہ بھی پوچھنے لگے ہیں کہ آیا اس بات پر واشنگٹن حکومت کو تشویش ہونا چاہیے؟
دنیا کے تمام ارب پتیوں کا سرمایہ بھی کم
امریکا پر دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود عوامی قرضوں کا بوجھ اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ پوری دنیا کے تمام ارب پتی انسانوں کی دولت کو جمع کیا جائے اور اس دولت سے امریکا کے ذمے قرضے واپس کر دیے جائیں تو پھر بھی ان قرضوں کا نصف بھی ادا نہیں ہو سکے گا۔
شماریاتی حوالے سے یہ بات بھی واشنگٹن حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بننا چاہیے کہ اگر امریکا کو اپنے ذمے تمام قرضے ادا کرنا ہیں، تو اس کے لیے اتنی زیادہ رقوم درکار ہوں گی کہ مثال کے طور پر دنیا کے ہر انسان کو امریکا کو قریب 3000 ڈالر عطیے کے طور پر دینا ہوں گے۔
امریکا کے ان مالیاتی مسائل کی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب ایک ایسی تنظیم کے پاس ہے، جو شروع ہی سے اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ امریکا میں ملکی بجٹ کے معاملے میں زیادہ احساس ذمے داری کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے۔
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
12 تصاویر1 | 12
اس تنظیم کا نام ہے، کمیٹی برائے ذمے دارانہ وفاقی بجٹ۔ اس کمیٹی کے نائب صدر مارک گولڈ وائن کہتے ہیں، ’’امریکا کا مستقل بنیادوں پر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ رقوم خرچ کرتا ہے، جتنی کہ اسے ٹیکسوں سے آمدنی ہوتی ہے۔‘‘ گولڈ وائن کے بقول یہ بات اس لیے اور بھی تشویشناک ہے کہ اب امریکی بانڈز کی خریداری میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔
امریکی بجٹ میں چین کا مالیاتی حصہ
اقتصادی اور سیاسی سطح پر امریکا کا ایک بڑا حریف ملک چین ہے، جو اب کافی برسوں سے جرمنی اور جاپان کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے امریکا کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ خود چین تک نے اتنی زیادہ مالیت کے امریکی ٹریژری بانڈز خرید رکھے ہیں کہ دیکھا جائے تو امریکا کے وفاقی بجٹ کا کافی زیادہ حصہ تو چینی سرمائے سے چلایا جا رہا ہے۔
چین نے امریکی ٹریژری بانڈز کی شکل میں واشنگٹن کے ذمے جو قرضے خرید رکھے ہیں، ان کی مجموعی مالیت 1.2 ٹریلین یا 1200 ارب ڈالر بنتی ہے۔ اس کے علاوہ جرمن سرمایہ کار اداروں اور شخصیات نے بھی امریکا کے قریب 90 ارب ڈالر کے قرضے انہی بانڈز کی شکل میں خرید رکھے ہیں۔