امریکا کے شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا پر فضائی حملے
26 فروری 2021
پینٹاگون کا کہنا ہے کہ صدر جو بائیڈن نے امریکی فوجی اور سفارتی مقامات پر حالیہ راکٹ حملوں کے جواب میں فضائی حملوں کا حکم دیا تھا۔ ان حملوں میں سترہ ایران نواز جنگجووں کے ہلاک ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔
اشتہار
مشرقی شام میں فضائی حملے صدر کی حیثیت سے جوبائیڈن کی پہلی فوجی کارروائی ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے دوران امریکی فوج نے ان تنصیبات کو نشانہ بنایا جنہیں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا استعمال کر رہی تھی۔
پنٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ یہ فضائی حملے ”صدر بائیڈن کے حکم پر" کیے گئے ہیں اور یہ عراق میں امریکی فوجیوں اور اتحادیوں پر حالیہ راکٹ حملوں کے خلاف جوابی کارروائی ہے۔
جوابی کارروائی
امریکا نے ان حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں بتایا تاہم انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والے ادارے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے دعوی کیا ہے کہ ان حملوں میں سترہ ایران نواز جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔
جان کربی نے مزید کہا”صدر جو بائیڈن کے حکم پر امریکی فوج نے مشرقی شام میں ایرانی حمایت یافتہ جنگجوں کے زیر استعمال انفرا اسٹرکچر پر فضائی حملے کیے۔ یہ حملے عراق میں امریکی اور اتحادی ملکوں کے خلاف حالیہ حملوں اور ان ملکوں کے اہلکاروں کو لاحق خطرات کے مد نظر کیے گئے ہیں۔"
انہوں نے بتایا کہ ان حملوں کے دوران ایرانی حمایت یافتہ عراقی مسلح گروپوں بشمول کتائب حزب اللہ اور کتائب سید الشہدا کے زیر استعمال سرحدی کنٹرول پوائنٹ کو نشانہ بنایا گیا۔
گزشتہ دنوں عراق میں امریکی اور اس کی اتحادی افواج کے ٹھکانوں پر تین راکٹ حملے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اربیل میں بھی ایک فوجی کمپلیکس کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں ایک شہری اور اتحادی فوج کے ساتھ کام کرنے والا ایک غیرملکی کانٹریکٹر ہلاک ہوگیا تھا جب کہ ایک امریکی فوجی متعدد دیگر امریکی کانٹریکٹر زخمی بھی ہوئے تھے۔
’ایران سے خطرہ‘، اسرائیل نے میزائل دفاعی نظام فعال کر دیا
01:06
تہران، امریکا کی نگاہ میں خطرہ
عراق میں ہونے والے ان حملوں کے پیچھے ایرانی حمایت یافتہ جنگجو گروپوں کا ہاتھ بتایا جا تا ہے۔ ان حملوں نے نئی بائیڈن انتظامیہ کے لیے چیلنج کھڑا کردیا ہے جو جوہری پروگرام کے حوالے سے تہران کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ بحال کرنا چاہتی ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنا چاہتی ہے جس سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو یک طرفہ طور پر الگ کرلیا تھا۔ لیکن دوسری طرف بائیڈن انتظامیہ تہران کو مشرق وسطی کی سکیورٹی کے لیے ایک مسلسل خطرے کے طور پر بھی دیکھتی ہے۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ان فضائی حملوں کے فوراً بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ”ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے کس چیز کو نشانہ بنایا ہے۔ ہمیں مکمل یقین ہے کہ ان حملوں میں ان اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے جنہیں بعض شیعہ عسکریت پسند گروپ استعمال کر رہے تھے۔
اشتہار
حملوں کی نکتہ چینی
پنٹاگون کے ترجمان جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکا نے یہ حملے اپنے اتحادیوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد کیے ہیں۔”ان حملوں سے ایک واضح پیغام جائے گا: صدر بائیڈن امریکی اور اتحادیوں کی حفاظت کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔"
بعض مبصرین نے ان حملوں کی نکتہ چینی کی ہے۔
نوٹرے ڈیم لا اسکول کی پروفیسر میری ایلن او کونیل نے نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ انہوں نے کہا ”اقوام متحدہ کا چارٹر کسی دوسرے خود مختار ملک کے علاقے پر فوج کے استعمال کے بارے میں واضح طورپر کہتا ہے کہ اس طرح کے حملے صرف اسی صورت میں جائز ہیں جب مذکورہ ملک نے اپنی دفاع میں کارروائی کرنے والے ملک پر مسلح حملہ کیا ہو۔ شام پر ہونے والے حملے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔"
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔