امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سالِ نو کے اپنے پہلے ٹوئٹر پیغام میں پاکستان کے لیے امداد بند کر دینے کے عندیے کے بعد سے سوشل میڈیا پر اس ٹوئٹ پر دھواں دھار تبصرے کیے جارہے ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس ٹوئٹ پر سوشل میڈیا میں بحث جاری ہے جس میں انہوں نے پاکستان پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان کو امداد دینے کے باوجود امریکا کو اس ملک سے صرف جھوٹ اور دھوکہ ہی ملا ہے۔
اس ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاکستان پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ عسکریت پسندوں کو محفوظ پناہ گاہيں فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ٹوئٹ پیغام کا شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے جہاں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد امریکی صدر کی اس ٹوئٹ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان افراد میں صحافی، تجزیہ کار اور سیاست دان بھی شامل ہیں۔
صحافی طلعت حسین نے اپنے ٹوئٹ پیغام میں لکھا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے اس پیغام کو سنجیدگی سے لینا چاہیےکیونکہ اس میں دھمکی کا عنصر شامل ہے اور اب ایک مشترکہ اور عقلمندانہ جواب دینے کی ضرورت ہے۔ طلعت حسین مزید لکھتے ہیں کہ اب کسی ایک ادارے کی جانب سے ٹرمپ کی ٹوئٹ کا جواب نامکمل ہو گا اور پاکستان کو مشترکہ طور پر اپنا ردعمل دینا ہوگا۔
امریکا میں پاکستان کی سابق سفیر اور پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن شیری رحمان نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا،’’ کولیشن سپورٹ فنڈ کو پاکستان میں کبھی بھی امداد کے طور پر نہیں لیا گیا اور نہ ہی اسے مالی معاونت کے طور پر دیکھا جائے گا۔ یہ پیسہ پاکستان کو سرحد پر مشترکہ کارروائیوں کے لیے دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ’امداد‘ پر بات علیحدہ سے کرنا ہوگی کیوں کہ پاکستان نے کبھی بھی نیٹو افواج کی آمد ورفت کا معاوضہ نہیں لیا۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ٹوئٹ میں سخت موقف اپناتے ہوئے لکھا،’’ ہم شدت پسندی کا خاتمہ کریں گے کیوں کہ یہ ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔ ہم امریکا کو اس کی اپنی ناکامیوں کی وجہ سے پاکستان کو قربانی کا بکرا بننے نہیں دیں گے۔‘‘ بلاول نے یہ بھی لکھا کہ امریکا افغانستان، عراق، شام اور ان دوسری دلدلوں میں جیتنا چاہتا ہے جہاں جہاں وہ پھنس گیا ہے۔ اُس کے پاس وہاں سے نکلنے کا کوئی منصوبہ بھی نہیں ہے۔ امریکا کے پاس اب حقائق سے چشم پوشی، الزامات اور بہانے ہی رہ گئے ہیں۔
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور سابقہ سکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا،’’ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انسانی اورا قتصادی نقصان اٹھایا۔ پاکستان کو 120 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اس کے عوض بہت ہی معمولی رقم پاکستان کو دی گئی۔‘‘
پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے گزشتہ روز پاکستانی چینل جیو ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار امریکا کو اپنے لوگوں کو ٹھہرانا چاہیے۔ وزیر خارجہ نے کہا،’’ ہم امریکا کو ’نو مور‘ کہہ چکے ہیں لہذا امریکا کے ’نو مور‘ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔‘‘ خواجہ آصف کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان امریکا کے دیے ہوئے ہر پیسے کا حساب دینے کو تیار ہے۔
پاکستانی سرکاری ریڈیو اسٹیشن کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی امداد القاعدہ کے خلاف کارروائیاں کرنے کے لیے دی گئی تھی۔
دوسری جانب پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت میں وزیر اعظم مُودی کی حکومت کے وزیر مملکت جیتندر سنگھ نے پاکستان کے حوالے سے ٹرمپ کی ٹوئٹ پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا،’’ ٹرمپ انتظامیہ نے دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان کے کردار سے متعلق بھارت کے موقف کی تائید کی ہے۔ دہشت گردی سےکوئی بھی قوم، ملک اور خطہ محفوظ نہیں ہوتا۔‘‘
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی ٹرمپ کی ٹوئٹ کی تائید کی۔ انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا،’’ صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ افغانستان کے دیہاتوں اور گھروں میں بم باری کرنے میں نہیں، بلکہ افغانستان کی سرزمین سے باہر کمین گاہوں میں ہے۔ میں صدر ٹرمپ کے بیان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔‘‘ حامد کرزئی نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکا کے ساتھ ایک علاقائی اتحاد بننا چاہیے جو پاکستان کی فوج کو افغانستان اور اس پورے خطے میں امن قائم کرنے پر مجبور کرے۔
پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو اسی بیان کے تناظر میں پیر کی شب دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔ دارالحکومت اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے نے ڈیوڈ ہیل اور پاکستانی حکام کے درمیان ملاقات کی تصدیق کی ہے، تاہم اس ملاقات میں ہونے والی گفت گو کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔
پاکستان: گزشتہ ایک عشرے کے بدترین دہشت گردانہ حملے
پاکستان نے 2001ء میں امریکا کی ’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘ میں شمولیت اختیار کی تھی اور تب سے ہی اسے عسکریت پسندوں کے حملوں کا سامنا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے گزشتہ ایک عشرے کے خونریز ترین بم دھماکوں پر ایک نظر !
تصویر: Picture-Alliance/AP Photo/A. Butt
2007ء: سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ
اٹھارہ اکتوبر کو کراچی میں مقتول سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں ایک سو انتالیس افراد ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا تھا، جب بے نظیر اپنی آٹھ سالہ جلا وطنی ختم کر کے پہلی مرتبہ واپس پاکستان پہنچی تھیں اور ایک جلوس میں شریک تھیں۔ بے نظیر بھٹو کو اُسی برس ستائیس دسمبر کو ایک خود کش حملے سے پہلے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/N. Khawer
2008ء: واہ کینٹ میں حملہ
اکیس اگست سن دو ہزار آٹھ کو اسلام آباد کے نواح میں واقع واہ کینٹ میں اسلحہ کی ایک فیکٹری (پی او ایف) میں ہوئے دوہرے خود کش بم دھماکے کے باعث چونسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ یہ پاکستان کی تاریخی میں کسی فوجی تنصیب پر بدترین حملہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2008ء: اسلام آباد کے لگژری ہوٹل پر حملہ
بیس ستمبر کو اسلام آباد کے فائیو اسٹار میریٹ ہوٹل پر حملہ کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں ساٹھ افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔ اس حملے میں دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں پانچ غیرملکی بھی شامل تھے جبکہ زخمی خیر ملکیوں کی تعداد پندرہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Matthys
2009ء: پشاور میں حملہ
اٹھائیس اکتوبر سن دو ہزار نو کو پشاور کے ایک مرکزی بازار میں ہوئے ایک کار بم حملے کے نتیجے میں ایک سو پچیس جانیں ضائع ہو گئی تھیں جبکہ زخمیوں کی تعداد دو سو سے بھی زائد تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان اور القاعدہ دونوں ہی نے قبول کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A Majeed
2009ء: لاہور نشانے پر
دسمبر میں پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور کی مون مارکیٹ میں یکے بعد دیگرے دو بم دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں چھیاسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر خواتین شامل تھیں۔
تصویر: DW/T.Shahzad
2010ء: والی بال میچ کے دوران حملہ
سن دو ہزار دس میں پاکستان کے لیے یکم جنوری کا دن ہی اداسی لے کر آیا تھا۔ اس دن بنوں ضلع میں اس وقت خود کش حملہ کیا گیا تھا، جب لوگ والی بال کا ایک میچ دیکھنے ایک گراؤنڈ میں جمع تھے۔ اس کارروائی میں ایک سو ایک افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Azam
2010ء: احمدیوں پر حملہ
اٹھائیس مئی کے دن لاہور میں اقلیتی احمدیوں کی دو مساجد پر حملہ کیا گیا، جس میں بیاسی افراد ہلاک ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس ان حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
تصویر: Getty Images/N. Ijaz
2010ء: ایک قبائلی مارکیٹ میں حملہ
تین ستمبر سن دو ہزار دس کو قبائلی علاقے مومند میں ایک مصروف مارکیٹ کو ایک خود کش بمبار نے نشانہ بنایا تھا، جس میں ایک سو پانچ افراد لقمہٴ اجل بنے۔ بعد ازاں پانچ نومبر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک خود کش حملہ ہوا، جس میں اڑسٹھ افراد ہلاک ہوئے۔ اس مرتبہ انتہا پسندوں نے نماز جمعہ کے دوران ایک مسجد کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
2011ء: ڈیرہ غازی خان اور چارسدہ میں تباہی
تین اپریل سن دو ہزار گیارہ کو دو خود کش حملہ آوروں نے ڈیرہ غازی خان میں واقع ایک صوفی مزار کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں پچاس افراد مارے گئے۔ اس برس تیرہ مئی کو بھی دو خود کش بمباروں نے چارسدہ میں واقع پولیس کی ایک تربیت گاہ کو ہدف بنایا، اس خونریز کارروائی کی وجہ سے اٹھانوے افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/H. Ahmed
2013ء: اقلیت پر حملے
سولہ فروری دو ہزار تیرہ کو کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن میں ایک بم دھماکا کیا گیا، جس میں 89 افراد مارے گئے۔ اس حملے میں بھی شیعہ ہزارہ کمیونٹی کو ہدف بنایا گیا تھا۔ بائیس ستمبر کو پشاور میں اس وقت بیاسی افراد مارے گئے تھے، جب دو خود کش بمباروں نے شہر میں واقع ایک چرچ کو نشانہ بنایا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
2014ء: اسکول پر بہیمانہ حملہ
سولہ دسمبر کا دن پاکستان میں قہر کا باعث بن گیا تھا۔ اس دن شدت پسندوں نے پشاور کے ایک اسکول پر حملہ کرتے ہوئے ایک سو چوّن افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر بچے ہی تھے۔ اسی برس دو نومبر سن دو ہزار چودہ کو پاکستان اور بھارت کے مابین واقع مرکزی سرحدی گزر گاہ کے قریب ہی ایک خود کش حملہ ہوا تھا، جس میں پچپن افراد لقمہٴ اجل بنے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images/A Majeed
2015ء: شیعہ کمیونٹی ایک مرتبہ پھر نشانہ
تیس جنوری کو صوبہٴ سندھ میں شکارپور کی ایک مسجد پر حملہ کیا گیا، جس میں باسٹھ افراد مارے گئے تھے۔ تیرہ مئی کو شدت پسندوں نے کراچی میں شیعہ اقلیت کی ایک مسجد کو نشانہ بنایا اور 45 افراد کو ہلاک کر دیا۔ پاکستان میں یہ پہلا حملہ تھا، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
2016ء: لاہور پارک بم دھماکا
ستائیس مارچ کو لاہور میں واقع بچوں کے ایک پارک پر حملہ کیا گیا، جس میں 75 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں بچے بھی شامل تھے۔ اس حملے میں بھی مسیحی اقلیت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
2016ء: کوئٹہ ہسپتال دھماکا
آٹھ اگست 2016ء کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں خود کش حملہ کیا گیا، جس میں کم ازکم ستر افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش کے علاوہ طالبان نے بھی قبول کی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan
کوئٹہ میں پولیس اکیڈمی پر حملہ
کوئٹہ میں دہشت گردی کی ایک کارروائی کے نتیجے میں کم ازکم انسٹھ افراد ہلاک جبکہ سو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔ فوج کے مطابق اس مرتبہ نقاب پوش خود کش حملہ آوروں نے پولیس کی ایک تربیتی اکیڈمی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس حملے میں زندہ بچ جانے والے ایک زیر تربیت پولیس اہلکار کا کہنا ہے،’’جنگجو سیدھے ہماری بیرک میں پہنچے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ ہم چیختے چلاتے بیرک میں ادھر ادھر بھاگنے لگے۔‘‘