1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا میں ہلاکتیں 80 ہزارسے زائد، وائٹ ہاؤس میں ماسک لازمی

12 مئی 2020

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے متعلق تشویش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نائب صدرمائیک پینس کے ٹیسٹ نیگیٹیو پائے گئے ہیں۔

USA | Donald Trump | Maskenpflicht für Mitarbeiter im Weißen Haus
تصویر: picture-alliance/Pool via CNP/O. Contreras

عالمی سطح پر کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد بیالیس لاکھ سے بھی زیادہ ہوگئی ہے جبکہ دو لاکھ 87 ہزار سے زیادہ افراد اب تک اس وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

سب سے زیادہ ہلاکتیں امریکا میں ہوئی ہیں جہاں بارہ لاکھ سے زائد لوگ کووڈ 19 سے متاثر ہوئے ہیں اور اب تک  80 ہزار سے زیادہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ 

  جرمنی میں معروف سائنسی ادارے رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ نے ملک میں کورونا وائرس سے متاثرین کے 933 مزید کیسز کی تصدیق کی ہے۔ 

  ایران میں حکام نے منگل 12 مئی سے مساجد کو عارضی طور پر کھولنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ماہ رمضان میں لوگ عبادت کر سکیں۔

جرمنی میں رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں 933 مزیدافراد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی ہے اور اس طرح ملک میں کورونا وائرس سے متاثرین کی کل تعداد 170,508 تک پہنچ گئی ہے۔گزشتہ روز یعنی پیر 11 مئی کو 357 نئے کیسز سامنے آئے تھے اور اس لحاظ سے یہ ایک بڑا اضافہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا وائرس سے متاثرہ 116 مزید افراد ہلاک ہوئے اور اس طرح جرمنی میں اب تک 7533 افراد کی کووڈ 19 سے موت ہوچکی ہے۔

جرمنی نے لاک ڈاؤن کے تحت عائد بندشوں میں نرمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور بعض حلقوں کی جانب سے کورونا وائرس کی وبا کی دوسری ممکنہ لہر کے بارے میں خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے دو سینئر افسران میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے کے بعد حکام نے تمام اسٹاف کو ماسک پہننے کی ہدایت جاری کی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس میں کام کے دوران 'ویسٹ ونگ'  کے تمام ملازمین کو ماسک پہننا لازمی ہوگا۔ ویسٹ ونگ میں ہی صدر ٹرمپ کا دفتر ہے۔ لیکن پریس بریفنگ کے دوران صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے حوالے سے ظاہر کی جانے والی تشویش کو مسترد کر دیا اور کہا کہ نائب صدر مائیک پینس کی جانچ نیگیٹیو آئی ہے۔ 

جرمنی نے لاک ڈاؤن کے تحت عائد بندشوں میں نرمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور بعض حلقوں کی جانب سے کورونا وائرس کی وبا کی دوسری ممکنہ لہر کے بارے میں خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیںتصویر: Reuters/T. Schmuelgen

پیر کی شام کو وائٹ ہاؤس کی یومیہ بریفنگ میں بھی اس وقت ڈرامائی صورت پیش آئی جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیے بغیر اچانک پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے۔ ورجینیا کی چینی نژاد صحافی ویجاجیانگ نے صدر سے سوال پوچھا کہ آخر ایک ایسے وقت جب ہر روز سینکڑوں امریکی  شہری ہلاک ہورہے ہیں، وہ اس بات پر بار بار کیوں زور دیتے ہیں کہ امریکا کووڈ 19 سے لڑائی میں دوسرے ممالک سے بہتر کر رہا ہے؟ اس پر ٹرمپ نے جواب دیا، ''ہلاک تو ہر جگہ ہو رہے ہیں، شاید یہ سوال آپ کو چین سے پوچھنا چاہیے۔ مجھ سے مت پوچھیے چین سے یہ سوال پوچھیے۔''

جب جیانگ نے کہا کہ آپ یہ خاص طور پر مجھ سے کیوں کہہ رہے ہیں تو ٹرمپ نے کہا، ''جو بھی ان سے ایسا سوال کرے گا اس کو وہ یہی جواب دیں گے۔''  اس کے بعد صدر نے دوسرے افراد سے سوال پوچھنے کو کہا تاہم اس کے فوراً بعد ہی وہ اچانک پریس کانفرنس چھوڑ کو چلے گئے۔

جنوبی کوریا میں بھی گزشتہ 24 گھنٹوں میں 27 مزید نئے کیسز سامنے آئے ہیں اور اس طرح متاثرین کی مجموعی تعداد 10936 ہوگئی ہے۔  جنوبی کوریا میں اب تک مجموعی طور پر 258 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

اس دوران فرانس نے سینٹرل امریکا میں پھنسے تقریباً 150 یورپی شہریوں کو نکال کر خصوصی پرواز سے یورپ پہنچا دیا ہے۔ اس میں 57 فرانسیسی شہریوں کے ساتھ ساتھ 18 جرمن بھی تھے۔ اس کے علاوہ اسپین اور اٹلی جیسے یوروپی ممالک کے افراد شامل ہیں۔ اس طرح اور بھی ایسے پھنسے افراد کے لیے بدھ 13 مئی کو ایک فلائٹ پرواز کے لیے تیار ہے۔     

چین میں بھی لاک ڈاؤن میں تیزی سے نرمی کا آغاز ہوگیا ہے جہاں گزشتہ 24 گھنٹوں میں صرف ایک ہی کیس سامنے آیا ہے۔ بیجنگ میں مڈل اسکول کھل گئے ہیں اور طلبہ کا اسکول میں آنا جانا جاری ہے۔

کار بنانے والی معروف کمپنی ٹیسلا نے امریکی ریاست کیلفورنیا میں اپنی فیکٹری کو کھول دیا ہے۔ گر چہ ریاستی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کر دی تھی تاہم مقامی انتظامیہ نے کار کے کارخانے نہ کھولنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ٹیسلا نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے فیکٹری میں اپنا کام کاج شروع کر دیا ہے۔ 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں