روس نے کہا ہے کہ امریکا یوکرین تنازعے میں براہ راست ملوث ہے کیونکہ امریکی جاسوس روسی فورسز پر یوکرینی میزائل حملوں کے معاملے پر مدد کر رہے ہیں۔
اشتہار
یوکرین میں روسی حملہ 1962ء میں کیوبا کے میزائل بحران کے بعد سے مغرب اور روس کے درمیان بدترین تناؤ کا سبب بنا ہوا ہے۔ اُس وقت دنیا بھر میں یہ خوف پیدا ہو گیا تھا کہ دنیا جوہری جنگ کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
روسی وزارت دفاع کے مطابق یوکرین کی ملٹری انٹیلیجنس کے نائب سربراہ وادیم سکبٹسکی نے اخبار ٹیلیگراف کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ واشنگٹن HIMARS میزائل حملوں میں تعاون کر رہا ہے۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق، ''یہ سب وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کی تردید کے برعکس اس بات کا بلاتردید ثبوت ہے کہ واشنگٹن یوکرین کے تنازعے میں براہ راست ملوث ہے۔‘‘
امریکی صدر جو بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ یوکرین روس کو شکست دے اور انہوں نےکییف کو کئی بلین ڈالر کے ہتھیار بھی فراہم کر چکے ہیں، تاہم امریکی حکام روسی اورامریکی فوجیوں کے درمیان براہ راست تصادم نہیں چاہتے۔
روسی افواج کا ماریوپول پر نیا حملہ
روسی افواج نے یوکرینی ماریوپول شہر کے نواح میں واقع ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب ایک نئی جنگی کارروائی شروع کر دی ہے۔ روسی فورسز ماریوپول کی طرف سست مگر پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
ماریوپول کی طرف پیش قدمی
روسی فوج نے یوکرین کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں نئے حملوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بالخصوص ماریوپول کے نواح میں واقع ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب ایک نئی جنگی کارروائی خونریز ثابت ہو رہی ہے، جہاں ایک ہی دن کی گئی کارروائی کے نتیجے میں اکیس شہری ہلاک جبکہ اٹھائیس زخمی ہو گئے۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
ازووِسٹال سٹیل پلانٹ نشانہ
روسی فورسز نے ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب بلاتفریق شیلنگ کی ہے۔ مشرقی دونستک ریجن میں اس روسی کارروائی کی وجہ سے بے چینی پھیل گئی ہے۔ یہ پلانٹ اب کھنڈر دیکھائی دے رہا ہے۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
قریبی علاقے بھی متاثر
ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریبی علاقوں میں بھی تباہی دیکھی جا سکتی ہے۔ مقامی افراد اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی شیلنگ کی وجہ سے شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ بھرپور طاقت کے استعمال کے باوجود روسی افواج ابھی تک اس علاقے میں داخل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
لوگوں کا انخلا جاری
روسی حملوں کے بیچ ماریوپول سے شہریوں کا انخلا بھی جاری ہے۔ تاہم سکیورٹی خطرات کی وجہ سے اس عمل میں مشکلات کا سامنا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ صورتحال ایسی ہے کہ کچھ پتہ نہیں کہ کب وہ روسی بمباری کا نشانہ بن جائیں۔
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS
آنسوؤں کے ساتھ ہجرت
یوکرینی نائب وزیر اعظم نے ماریوپول کے مقامی لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ انہیں محفوظ علاقوں میں منتقل کیا جائے گا۔ ان کے مطابق شہریوں کے تحفظ اور ان کی محفوظ مہاجرت کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا ہے، جس کے تحت لوگوں کو جنگ زدہ علاقوں سے نکالا جا رہا ہے۔
تصویر: Francisco Seco/AP/dpa/picture alliance
جانے والے پیچھے رہ جانے والوں کی فکر میں
نئے حکومتی منصوبے کے تحت اسی ہفتے پیر کے دن 101 شہریوں کو ماریوپول سے نکال کر قریبی علاقوں میں منتقل کیا گیا۔ ان میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ علاقوں میں جانے والے البتہ اپنے پیاروں سے بچھڑ کر اداس ہی ہیں۔ زیادہ تر مرد ملکی فوج کے ساتھ مل کر روسی فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
تصویر: Francisco Seco/AP/picture alliance
یوکرینی فوج پرعزم
روسی فوج کی طرف سے حملوں کے باوجود یوکرینی فوجیوں کا کہنا ہے کہ ان کے حوصلے بلند ہیں۔ مغربی ممالک کی طرف سے ملنے والے اسلحے اور دیگر فوجی سازوسامان کی مدد سے وہ روسی پیش قدمی کو سست بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ یوکرینی فوجی جنگ کے ساتھ ساتھ شہریوں کے محفوظ انخلا کے لیے بھی سرگرداں ہیں۔
تصویر: Peter Kovalev/TASS/dpa/picture alliance
روس نواز جنگجوؤں کی کارروائیاں
ماریوپول میں روس نواز مقامی جنگجو بھی فعال ہیں، جو یوکرینی افواج کے خلاف برسرپیکار ہیں۔BM-21 گراڈ راکٹ لانچ سسٹم سے انہوں نے ازووِسٹال سٹیل پلانٹ کے قریب حملے کیے، جس کی وجہ سے املاک کو شدید نقصان ہوا۔
تصویر: ALEXANDER ERMOCHENKO/REUTERS
روسی فوج کے اہداف نامکمل
چوبیس فروری کو شروع ہونے والی جنگ میں اگرچہ روسی افواج نے یوکرین کے کئی شہروں کو کھنڈر بنا دیا ہے تاہم وہ اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ روسی فوج نے شہری علاقوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، جس میں ماریوپول کا یہ اسکول بھی شامل ہے، جو روسی بمباری کی وجہ سے تباہ ہو گیا۔
تصویر: Alexei Alexandrov/AP/picture alliance
ماریوپول کھنڈر بن گیا
روسی جارحیت سے قبل یوکرینی شہر ماریوپول کی آبادی تقریبا چار لاکھ تھی۔ یہ شہر اب کھنڈر بن چکا ہے۔ روسی فوج کی کوشش ہے کہ اس مقام پر قبضہ کر کے یوکرین کا بحیرہ اسود سے رابطہ کاٹ دیا جائے۔ اسی سمندری راستے سے یوکرین کو خوارک اور دیگر امدادی سامان کی ترسیل ہو رہی ہے۔
تصویر: Alexei Alexandrov/AP/picture alliance
10 تصاویر1 | 10
روس کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ یوکرین کے ان مشرقی علاقوں میں میزائل حملوں کی ذمہ دار ہے جن کا کنٹرول روسی حمایت یافتہ فورسز کے پاس ہے۔ روسی وزارت دفاع کے مطابق، ''یہ بائیڈن انتطامیہ ہے جو ڈونباس اور دیگر خطوں میں رہائشی علاقوں اور سویلین انفراسٹرکچر پر کییف کی ایما پر کیے جانے والے راکٹ حملوں کی ذمہ دار ہے اور جو عام شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کا سبب بنے ہیں۔‘‘
روس اور مغرب یوکرین کے تنازعے کو مختلف طرح سے پیش کرتے ہیں۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اسے 'اسپیشل ملٹری آپریشن‘ کا نام دیتے ہیں جس کا مقصد ان کے مطابق روس کو دھمکانے کے لیے یوکرین کو استعمال کرنے کی مغربی کوشش کا راستہ روکنا اور روسی زبان بولنے والوں کو یوکرین کے 'خطرناک قوم پرستوں‘ سے محفوظ رکھنا ہے۔
کریملن کے سربراہ 69 سالہ پوٹن مسلسل اس تنازعے کو مغرب کے ساتھ اپنی بقا کی جنگ قرار دے چکے ہیں اور جس کا نتیجہ عالمی سیاسی منظر نامے کا نئے سرے سے تعین کرے گا۔
یوکرین کے لیے امریکی بکتر بند گاڑیاں
03:03
یوکرین جنگ میں کس کا کتنا جانی نقصان ہوا؟
روس کی جانب سے رواں برس 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے آغاز سے اب تک دونوں جانب کتنی ہلاکتیں ہو چکی ہیں اس کی واضح تعداد نہ تو یوکرین کی طرف سے بتائی جاتی ہے اور نہ ہی روس کی طرف سے۔
امریکی انٹیلیجنس کا اندازہ ہے کہ روس کے اب تک قریب 15 ہزار فوجی یوکرین میں مارے جا چکے ہیں۔ یہ تعداد اس کے برابر ہے جو سابق سوویت یونین کے دور میں افغانستان میں 1979 سے 1989 تک جاری رہنے جنگ میں ہوئی تھی۔ امریکی انٹیلیجنس کے اندازوں کے مطابق یوکرینی ہلاکتیں اس سے نسبتاﹰ کم ہیں۔