امریکہ اسرائیل تعلقات میں تبدیلی کے آثار
8 جون 2010کئی تجزیہ نگار اسے گزشتہ کئی برسوں کے دوران امریکی اسرائیلی روابط میں نظر آنے والے شدید ترین بحران سے تعبیر کر رہے ہیں۔ خاص طور سے صدر باراک اوباما کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے واضح طور پر یہ تاثر مل رہا ہے کہ امریکہ اب اقوام متحدہ میں اٹھائے جانے والے ہر معاملے میں اسرائیل کی اندھا دھند تائید و حمایت نہیں کرے گا۔ بالخصوص ایک ایسے وقت پر جب اسرائیل کو عالمی سطح پر مسلسل تنقید اور مذمت کا سامنا ہے۔
باراک اوباما کی قیادت میں امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ وہ تنارعہ مشرق وسطیٰ کے سلسلے میں ایک غیر جانبدار ثالث کی حیثیت سے اپنے کردار کو ایک بار پھر سے منوا سکے۔ اس بارے میں سابقہ امریکی حکومت پر تنقید کرنے والوں کا ماننا ہے کہ صدر جارج ڈبلیو بُش کے دور میں امریکہ کی اس ساکھ کو بہت دھچکہ لگا تھا۔
واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک Carnegie Endowment for International Peace کے مشرق وسطیٰ کے لئے پروگرام کی ڈائریکٹر مارینا اوٹاوے کے بقول بُش دور میں اسرائیل کو امریکہ کی غیر مشروط تائید و حمایت کی عادت پڑ گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے: ’’صدر بُش کا اسرائیل سے متعلق موقف انتہاپسندی کی حد تک جانبدار تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسرائیلی کابینہ اور وزیر اعظم نیتن یاہو کو اُن کی پالیسیوں پر کی جانے والی ہلکی پھلکی تنقید بھی نہایت گراں گزرتی ہے۔ امریکہ کی مسلسل یہ کوشش ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کوئی ایسا پلیٹ فارم نہ بنے، جسے اسرائیل پر لعنت ملامت کے لئے استعمال کیا جائے۔‘‘
صدر اوباما ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے خلاف تہران پر اقتصادی پابندیوں کے اقوام متحدہ کے چوتھے راؤنڈ کے لئے بھی ممکنہ زور لگا چکے ہیں اور غالباً سلامتی کونسل اس پر رواں ہفتے کوئی فیصلہ بھی کر لے گی۔ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام کو اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ مارینا اوٹاوے کے مطابق اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکہ کی اسرائیل سے متعلق پالیسیوں میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آئی تاہم واشنگٹن اور تل ابیب کے مابین تعلقات غیر معمولی طور پر تناؤ کا شکار اس لئے نظر آ رہے ہیں کہ اسرائیل کا رد عمل بہت زیادہ غیر متناسب ہے۔
گزشتہ ہفتے غزہ کے عوام کے لئے امدادی اشیاء لے جانے والے بحری قافلے پر اسرائیلی دستوں کا کمانڈو ایکشن، جس کے نتیجے میں نو ترک باشندے ہلاک ہوئے تھے، کے خلاف اقوام متحدہ نے بیان دیا تھا اورامریکہ نے اس بیان کی تائید کی تھی۔ اس بیان میں اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔ ساتھ اس معاملے کی فوری، غیرجانبدارانہ، قابل بھروسہ اور شفاف چھان بین کرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ایک ایسی تفتیشی کارروائی کا مطالبہ جو عالمی معیار پر پورا اترے۔ اس پر واشنگٹن اوراقوام متحدہ کے سفارتکاروں سمیت امریکی اہلکاروں نے تمام تر کوششں کی کہ 15 رُکنی سلامتی کونسل آزادانہ تفتیش یا چھان بین پر زور نہ دے اور یہ کہ اُن واقعات کی وجہ سے سلامتی کونسل کی طرف سے اسرائیل کو علیحدہ سے تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔
رپورٹ کشور مصطفیٰ / خبر رساں ایجنسی
ادارت مقبول ملک