امریکہ: اسقاطِ حمل قانون پر ہنگامہ برپا
4 مئی 2022منگل کے روز امریکہ کے مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ نیویارک شہر میں حالیہ عرصے میں یہ سب سے بڑا مظاہرہ تھا، جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ اٹلانٹا، فلاڈیلفیا، ڈینوور اور لاس اینجلس سمیت دیگر شہروں میں بھی اسی طرح کے مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں کا اہتمام خواتین کی تنظیموں نے کیا تھا۔ یہ مظاہرے ایسے وقت ہورہے ہیں جب امریکہ میں چند ماہ بعد کانگریس کے وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں۔
مظاہرین اس مجوزہ اسقاطِ حمل قانون کے خلاف احتجاج کررہے ہیں جس کے متعلق سپریم کورٹ کی رائے کو پیر کے روز ایک میڈیا ادارے نے افشا کردیا تھا۔ مظاہرین کاکہنا ہے کہ اسقاط حمل ان کا حق ہے۔
نیویارک کے مظاہروں میں شریک 41سالہ خاتون ٹیلنٹ منیجر الائینا فیہان نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا،"مجھے امید ہے کہ ان مظاہروں کا نتیجہ وسط مدتی انتخابات کے دوران ووٹ کی شکل میں دیکھنے کو ملے گا اور میرے خیال میں یہ ایک مثبت بات ہوگی۔"
کیا ہے مجوزہ قانون؟
یہ مجوزہ قانون اسقاط حمل کے حوالے سے سن 1973 کے رو بنام ویڈ کیس میں اس تاریخ ساز فیصلے کی جگہ لے گا جس کے ذریعہ ملک بھر میں اسقاط ِ حمل کو جائز قرار دیا گیا تھا۔اور اس کے نتیجے میں نصف صدی سے تمام امریکی خواتین کو حاصل اسقاطِ حمل کے حق کا خاتمہ ہو جائے گا۔
پیر کے روز میڈیا ادارے پولیٹیکو نے اس قانون پر سپریم کورٹ کی رائے کو افشا کردیا تھا۔ اخبار کے مطابق اسے سپریم کورٹ کی جو دستاویزات ملی ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ عدالت عظمی 1973 کے رو بنام ویڈ کیس میں دیے گئے تاریخ ساز فیصلے کوپلٹ سکتی ہے۔
پولیٹیکو کی طرف سے 98صفحات پر مشتمل مسودے کی اشاعت کے بعد سے ہی ملک میں ہنگامہ برپاہے۔ دھماکے دار خیال کیے جانے والے اس فیصلے کی نہ صرف ڈیموکریٹس نے مذمت کی ہے بلکہ چند اعتدال پسند ری پبلیکنز نے بھی اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔
مسودہ اصل ہے
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے پولیٹیکو کی طرف سے شائع کردہ مسودے کے متن کو مصدقہ قرار دیا۔ تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے ایک بیان جاری کرکے کہا گیا ہے کہ یہ ججوں کے اس حتمی فیصلے کی نمائندگی نہیں کرتا جس کا اعلان جون کے اواخر تک کردیا جائے گا۔
چیف جسٹس جان رابرٹس نے کہا کہ اس مسودے کی اشاعت "سنگین اعتماد شکنی" کے متراد ف ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی انکوائری کا حکم دے دیا گیا ہے کہ آخر ی یہ مسودہ کیسے لیک ہوا۔
صدر بائیڈن کا ردعمل
امریکی صدر جو بائیڈن نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی رائے کا جو مسودہ لیک ہوا ہے اگر وہ درست ہے تو یہ ایک قدامت پسندانہ فیصلہ ہے اور یہ امریکی قانون کے فلسفے کے اعتبار سے ایک بنیادی تبدیلی ہے۔
انہوں نے مجوزہ قانون کی نکتہ چینی کرتے ہوئے دلیل دی کہ اس قسم کا فیصلہ صادر کرنے سے دیگر حقوق کے بارے میں بھی سوال اٹھے گا، جس میں ہم جنس پرست شادیاں شامل ہیں، جسے عدالت نے 2015ء میں تسلیم کیا تھا۔ بائیڈن نے کہا کہ اگرمسودہ قانون کی شکل اختیار کرتا ہے تو تشویش ہے کہ اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ رو کیس میں تقریباً نصف صدی پرانا فیصلہ امریکی آئین کے تحت کسی خاتون کی جانب سے حمل ضائع کرنے کے حق کو اس کا ذاتی حق تسلیم کرتا ہے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)