1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’امریکہ اسلام قبول کرے‘، الشباب کی دھمکی

30 دسمبر 2010

’امریکی صدر باراک اوباما اور امریکی شہری اگر مذہب اسلام قبول نہیں کرتے تو ان پر حملے کئے جائیں گے‘۔ صومالی باغی گروہ الشباب کی طرف سے جاری ہونے والی اس نئی مبینہ دھمکی کو محض ایک پروپیگنڈا قرار دیا جا رہا ہے۔

تصویر: AP

دہشت گرد القاعدہ نیٹ ورک کے حامی اس عسکری گروہ نے خبردارکیا ہے کہ اگر امریکی صدر اور عوام مسلمان نہیں ہوجاتے تو ان کے جانباز امریکہ کے اندر حملوں کا آغاز کر دیں گے۔ الشباب کے تیسرے سب سے بڑے رہنما فواد محمد خالف کی طرف سے منگل کو جاری کئے جانے والے اس بیان کو ایک پروپیگنڈے کی طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

صومالیہ اور بیرون ممالک میں سکونت پذیر سکیورٹی ماہرین نے کہا ہے کہ اس گروہ میں نہ تو اتنی سکت ہے اور نہ ہی وسائل کہ یہ امریکی سر زمین پر کوئی دہشت گردانہ کارروائی سر انجام دے سکے۔ موغا دیشو یونیورسٹی سے وابستہ تاریخ کے لیکچرر راگی فارح کہتے ہیں،’ میں یہ یقین نہیں کر سکتا ہوں کہ الشباب اپنی اس نئی دھمکی کو عملی جامہ پہنا سکتا ہے۔ یہ صرف ایک پروپیگنڈا ہے۔‘

موغادیشو میں سرگرم الشباب کے جنگجوتصویر: AP

خبررساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے راگی فارح نے کہا کہ الشباب نے خود تسلیم کیا ہے کہ وہ افریقی یونین کے امن فوجی دستوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو چکا ہے،’ یہ عسکری گروہ یوگنڈا یا اپنے دیگر ہمسایہ ممالک میں ہی کارروائیاں کر سکتا ہے، جو ان کی رسائی میں ہیں۔‘ رواں سال ہی یہ عسکری گروہ یوگنڈا میں ایک بڑا بم حملہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ جولائی میں یوگنڈا کے دارالحکومت میں ہونے والے دو بم دھماکوں کے نتیجے میں کم ازکم 79 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ گروہ کمزورہوتا جا رہا ہے۔

صومالی حکومت اورافریقی یونین کے فوجی امن دستوں نے مشترکہ طور پر گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران الشباب کے خلاف کافی زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سکیورٹی ماہرین کےمطابق موجودہ صورتحال کے تناظرمیں یہ معلوم ہو رہا ہے کہ اس وقت یہ گروہ انتہائی کمزور ہو چکا ہے اوراب یہ صومالی حکومت کا تختہ الٹنے کی اہلیت بھی کھو چکا ہے۔

نیروبی یونیورسٹی سے وابستہ ایک سکیورٹی تجزیہ نگارعبدی وہاب عبدی سرمد کے مطابق،’ اس وقت الشباب کے پاس کوئی تین ہزار تا پانچ ہزار جنگجو ہیں۔ پاکستان اورافغانستان سے تعلق رکھنے والے دو ہزارجنگجو بھی ان کے ساتھ شامل ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ الشباب کے اندر بھی نظریاتی اختلافات پائے جاتے ہیں اور یہ گروہ دو گروپوں میں بٹ کر رہ گیا ہے۔ سرمد کے بقول ایک گروپ جہاد کی طرف مائل ہےجبکہ دوسرا صومالیہ پر قابض ہونے کی کوشش میں ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں