امریکہ اور افغان طالبان میں قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت
8 جنوری 2025امریکہ کے معروف میڈیا ادارے وال اسٹریٹ جنرل نے منگل کے روز یہ اطلاع دی کہ بائیڈن انتظامیہ افغانستان میں قید امریکی قیدیوں کی رہائی کے لیے گوانتانامو بے میں قید کم از کم ایک ہائی پروفائل قیدی کے تبادلے پر افغان طالبان سے بات چیت میں مصروف ہے۔
اطلاعات کے مطابق امریکی قیدیوں کی رہائی کے بدلے میں واشنگٹن گوانتنامو بے کے جس قیدی کو افغان طالبان کے حوالے کرنے پر غور کر رہا ہے، مبینہ طور پر ان کا تعلق القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن سے بتایا جاتا ہے۔
وائٹ ہاؤس اور امریکی وزارت خارجہ سے جب اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے کی درخواست کی گئی تو، انہوں نے فوری طور پر اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ ان اطلاعات پر افغان طالبان کے نمائندوں نے بھی فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
روس کی طالبان کو دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے کی تیاری
وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سن 2022 میں پکڑے گئے تین امریکی شہریوں ریان کاربیٹ، جارج گلیزمین اور محمود حبیبی کی واپسی کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے بدلے میں وہ محمد رحیم الافغانی کو طالبان کو واپس کرنے پر غور کر رہی ہے۔
اس معاملے سے واقف ایک ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بھی اس بات کی تصدیق کی کہ بائیڈن انتظامیہ اس معاملے پر جولائی سے ہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے اور تجویز پیش کی گئی ہے کہ کاربیٹ، گلیزمین اور حبیبی کے بدلے میں رحیم الافغانی کو رہا کیا جا سکتا ہے۔
ٹرمپ کی جیت افغانستان کے لیے کیا معنی رکھتی ہے؟
ذرائع نے معاملے کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان طالبان حبیبی کو قید میں رکھنے سے انکار کرتے ہیں، تاہم انہوں نے رحیم کے بدلے گلیزمین اور کاربٹ کے تبادلے کی پیشکش کا جواب دیا ہے۔
واضح رہے کہ اگست 2022 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے ایک برس بعد کاربیٹ اور حبیبی کو دو مختلف واقعات میں حراست میں لیا گیا تھا۔ اس کے بعد گلیزمین کو بھی 2022 میں سیاح کے طور پر دورہ کرنے کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔
امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ وہ وال اسٹریٹ جنرل کی اسٹوری کی تصدیق نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ تینوں امریکیوں کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے "چوبیسوں گھنٹے کام کر رہی ہے۔"
افغانستان: جنگی جرائم کے مرتکب آسٹریلوی فوجی تمغوں سے محروم
ادھر رحیم کے وکیل جیمز کونیل نے روئٹرز کو بتایا کہ بائیڈن انتظامیہ اور نہ ہی طالبان نے انہیں یا رحیم کو ان مذاکرات کے بارے میں مطلع نہیں کیا ہے۔
کونیل نے کہا، "یہ بات اہم ہے کہ رحیم یا ان کے نمائندے کو اس بات چیت میں شامل کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو وہ اس تبادلے کے لیے تیار ہیں۔"
طالبان کی قید سے اپنے شہریوں کی رہائی پہلی ترجیح ہے، امریکہ
گیارہ ستمبر 2001 کے القاعدہ کے حملوں کے بعد قائم کی گئي امریکی ایجنسی کے پروگرام کا حوالہ دیتے ہوئے کونیل نے کہا کہ رحیم "سی آئی اے کے اس ٹارچر پروگرام میں لایا جانے والا آخری شخص تھا" جس میں مشتبہ اسلامی عسکریت پسندوں سے پوچھ گچھ کے لیے سخت طریقے استعمال کیے جاتے تھے۔
امریکی تفتیشی ایجنسی سی آئی اے ایذا رسانی اور تشدد جیسے طریقے اپنا کر پوچھ گچھ کرنے کی تردید کرتی ہے۔
سی آئی اے نے سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی کو فراہم کردہ اپنی رپورٹ میں رحیم کو "القاعدہ کا سہولت کار" قرار دیا تھا اور کہا کہ جون 2007 میں انہیں پاکستان میں گرفتار کیا گیا اور اس کے اگلے مہینے انہیں سی آئی اے کے حوالے کیا گیا تھا۔
'افغانستان کے لیے امریکی فنڈ شاید عسکریت پسندوں کو پہنچ گئے'
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رحیم کو سی آئی اے کی ایک خفیہ "بلیک سائٹ" میں رکھا گیا تھا، جہاں انہیں سخت تفتیشی طریقوں کا نشانہ بنایا گیا، جس میں نیند کی کمی بھی شامل تھی اور پھر مارچ 2008 میں گوانتانامو بے بھیج دیا گیا۔۔
وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق امریکہ اور طالبان کے مذاکرات جولائی سے جاری ہیں۔ اس نے ان ذرائع کا حوالہ دیا، جنہوں نے گزشتہ ماہ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے ساتھ ایک خفیہ ہاؤس فارن افیئرز کمیٹی کی بریفنگ میں شرکت کی تھی۔
پیر کے روز بائیڈن کی انتظامیہ نے گوانتانامو کے 11 قیدیوں کو عمان بھیجا، جس سے کیوبا کے حراستی مرکز میں قیدیوں کی مجموعی آبادی پندرہ رہ گئی ہے۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، ایجنسیاں)