1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

جرمن اسلحہ ساز کمپنی کے سربراہ کے قتل کا روسی منصوبہ ناکام

12 جولائی 2024

امریکی میڈیا اداروں کی رپورٹس کے مطابق مبینہ سازش میں جرمنی میں ہتھیار بنانے والی ایک بڑی کمپنی رینمیٹال کے سی ای او کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ کمپنی یوکرین کو توپ خانے کے گولے اور ٹینک فراہم کرتی ہے۔

ارمین پیپرگر
ہتھیار بنانے والی بڑی جرمن کمپنی رینمیٹال یوکرین کو ہتھیار فراہم کرتی ہے، اس لیے کمپنی کے سی ای او ارمین پیپرگر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئیتصویر: Julian Stratenschulte/dpa/picture alliance

امریکی میڈیا ادارے سی این این نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ کس طرح جرمنی کی معروف اسلحہ ساز کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کو قتل کرنے کی مبینہ روسی سازش کو رواں برس کے شروع میں امریکی اور جرمن حکام نے ناکام بنا دیا تھا۔

نیٹو کا چین پر روس کی مدد کا الزام، بیجنگ کا سخت ردعمل

سی این این نے جرمن حکومت کے ایک سینیئر اہلکار سمیت پانچ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ ہتھیار بنانے والی ایک بڑی جرمن کمپنی رینمیٹال چونکہ یوکرین کو ہتھیار فراہم کرتی ہے، اس لیے کمپنی کے سی ای او ارمین پیپرگر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

یوکرین کو مزید دفاعی امداد پر نیٹو رہنماؤں کی بات چیت

امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے اس سازش کے بارے میں اپنے جرمن ہم منصبوں کو مطلع کیا، جس کی بنیاد پر بعد میں پیپرگر کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے گئے تھے۔

'انتہائی مایوس کن'، مودی کے دورہ روس پر یوکرینی صدر کا ردعمل

نیو یارک ٹائمز نے بھی اس سازش کے بارے میں رپورٹ کیا، جس میں کہا گیا کہ سازش کو ناکام بنانے میں متعدد مغربی حکام شامل تھے۔

مودی کی پوٹن سے بات چیت اور بھارت کو امریکی نصیحت

برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کا کہنا کہ اس نے اس حوالے سے نیٹو کے سفارت کاروں سے بات چیت کی۔

جرمن چانسلر کی یوکرین جنگ میں 'ملوث' نہ ہونے کی ضمانت

 سی این این کے مطابق کریملن نے یورپی ہتھیاروں کی صنعت سے وابستہ ان اعلیٰ شخصیات کو نشانہ بناتے ہوئے سلسلہ وارقتل کا منصوبہ بنایا تھا، جن کی کمپنیاں روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی مسلح افواج کی مدد کر رہی ہیں۔

یوکرین جنگ: ہنگری کے وزیر اعظم اوربان کا کییف کا پہلا دورہ

لیکن باقی منصوبوں کے برعکس جرمن کمپنی رینٹیال کے سی ای او پیپرگر کے قتل کا پلان کافی آگے بڑھ چکا تھا۔

ادھر اسلحہ ساز کمپنی نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ حفاظتی اقدامات ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ اس نے خبر رساں ایجنسیوں کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ سکیورٹی حکام کے ساتھ باقاعدہ مشاورت کے دوران ''ضروری اقدامات ہمیشہ کیے جاتے ہیں۔''

آنے والے مہینوں میں یوکرین میں جنگ جاری رہنے گی توقع ہے، اس لیے رینمیٹال کمپنی کو سن 2024 میں چالیس فیصد تک اضافی فائدے کی توقع ہےتصویر: Sepp Spiegl/IMAGO

پیپرگر نے فرینکفرٹ کے ایک مقامی میڈیا ادارے کو بتایا کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ آنے والے مہینوں میں یوکرین میں جنگ جاری رہے گی اور اس وجہ سے، 2024 میں کمپنی کو چالیس فیصد تک اضافی فائدے کی توقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ روس نے اپنی پوری صنعتی بنیاد کو جنگ کے وقت کی معیشت میں تبدیل کر دیا ہے۔ اور ''یہ ہمیشہ کے لیے چل سکتا ہے۔''

روس نے مغربی میڈیا کے بیشتر اداروں تک رسائی کو روک دیا

جرمن چانسلر اولاف شولز نے نیٹو میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم انہوں نے کہا حکومت ان بے شمار خطرات سے بخوبی آگاہ تھی۔

جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے بھی نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر یہ بات تسلیم کی۔ انہوں نے کہا کہ روس کی یہ مہم ''ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہمیں بطور یورپی اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مل کر محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔''

وزیر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ جرمن حکومت ''روسی دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہو گی اور جرمنی میں ممکنہ خطرات کو روکنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوشش جاری رکھے گی۔''

'روس عناد کی مہم کا نمونہ دکھا رہا ہے'

اس ہفتے واشنگٹن میں نیٹو کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اتحاد کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا کہ روس نے سائبر حملے اور زہر دینے سمیت ''نیٹو اتحادیوں کے خلاف دشمنانہ کارروائیاں کرنے'' کے ایک ''نمونے'' کی نمائش کی ہے۔

وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے مواصلاتی مشیر جان کربی نے کہا کہ وہ ''خفیہ خدمات کے امور کے بارے میں بات نہیں کر سکتے'' تاہم ان کا کہنا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا ماننا ہے کہ ''مغرب یوکرین کو جو مدد فراہم کر رہا ہے وہ جنگ کو طول دینے والی واحد چیز ہے۔''

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

کیا جرمنی یورپ میں نیٹو کی قیادت کر سکتا ہے؟

02:39

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں