امریکہ اور جنوبی کوریا میں اب مشترکہ ایٹمی مشقوں پر بات چیت
2 جنوری 2023
جنوبی کوریا کے صدر کا کہنا ہے کہ ان کا ملک اور امریکہ جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے ایک مشترکہ منصوبہ بندی اور مشقوں پر غور کر رہے ہیں۔ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان یہ بات سامنے آئی ہے۔
اشتہار
جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کا کہنا ہے کہ امریکی جوہری اثاثوں کا استعمال کرتے ہوئے، سیول اور واشنگٹن ایک مشترکہ منصوبہ بندی اور اس کی مشقوں پر بات چیت کر رہے ہیں۔
انہوں نے ایک مقامی اخبار میں دو جنوری پیر کے روز شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں یہ بات کہی۔ انہوں نے اخبار کو بتایا، ''جوہری ہتھیار امریکہ کے ہیں، تاہم منصوبہ بندی، معلومات کا تبادلہ، مشقیں اور تربیت جنوبی کوریا اور امریکہ کو ایک ساتھ مشترکہ طور پر کرنا چاہیے۔''
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس خیال کے بارے میں امریکہ کی سوچ بھی ''کافی مثبت'' ہے۔
جنوبی کوریا کے صدر نے کہا کہ اس منصوبہ بندی اور مشق کا مقصد امریکہ کے ''توسیعی تدارک'' کو مزید موثر بنانا ہے، اس سے مراد اپنے اتحادیوں پر حملوں کو روکنے کے لیے امریکی فوج کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔
جنوبی کوریا کے صدر نے شمالی کوریا کی جانب سے بڑھتے ہوئے خطرے کی پس منظر میں یہ بات کہی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کو برقرار رکھنا اب بھی اہم ہے۔ واضح رہے کہ یون سک یول کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
اس سے ایک دن قبل ہی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے یہ کہتے ہوئے اپنی فوج سے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) تیار کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ وہ جنوبی کوریا اور امریکہ کے ساتھ کشیدگی کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ کر
سکیں۔
گزشتہ ہفتے حکمران ورکرز پارٹی کے اجلاس میں کم جانگ نے نئے فوجی اہداف کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھاکہ جنوبی کوریا اب شمالی کا ''بلاشبہ دشمن'' بن چکا ہے۔
یکم جنوری اتوار کے روز شمالی کوریا نے اپنے مشرقی ساحل سے مختصر فاصلے تک مار کرنے والا ایک بیلسٹک میزائل بھی فائر کیا تھا، جبکہ اس سے ایک دن پہلے اس نے تین بیلسٹک میزائل داغے تھے۔
شمالی کوریا نے اقوام متحدہ کی تمام پابندیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سن 2022 میں تقریباً ہر ماہ ہی ہتھیاروں کے تجربات کیے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے دوران کی سست روی کے بعد جنوبی کوریا نے بھی امریکہ کے ساتھ اپنی مشترکہ فوجی مشقوں میں اضافہ کیا ہے۔
سن 2029 میں دونوں کوریاؤں کے درمیان امن مذاکرات ختم ہونے کے بعد کم نے ہتھیاروں کے تجربات میں اضافہ کیا اور اب سیول اور واشنگٹن کا خیال یہ ہے کہ پیونگ یانگ اپنے ساتویں جوہری تجربے کی تیاری کر رہا ہے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)
’گھوسٹ شپس،‘ کہانیاں اور حقیقت
اسی ہفتے ایک لاوارث بحری جہاز آئرلینڈ کے ساحلوں پر پہنچا۔ لیجنڈ بحری جہاز ’فلائنگ ڈچ مین‘ سے لے کر جاپانی ساحلوں پر لاپتہ ہونے والی شمالی کوریائی کشتیوں تک، گھوسٹ شپس کا داستانوں اور حقیقت دونوں میں ہی ذکر ملتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Dietmar Hasenpusch
ایم وی آلٹا
ایم وی آلٹا نامی یہ بحری جہاز اسی ہفتے آئرلینڈ کے ساحلوں پر پہنچا۔ یہ جہاز سن 2018 میں خراب ہو گیا تھا اور اس کے عملے نے اسے سمندر میں لاوارث چھوڑ دیا تھا۔ یہ لاوارث بحری جہاز ایک سال سے بھی زائد عرصے تک بحر اوقیانوس میں ہزارہا میل کا سفر کرتا ہوا آخر آئرلینڈ کے ایک ساحل تک پہنچا۔
تصویر: AFP/Irish Coast Guard
فلائنگ ڈچ مین
کیپٹن ہینڈرک فان ڈیر ڈیکن کا ذکر افسانوں میں ملتا ہے اور انہیں ڈچ مین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے1641ء میں ایمسٹرڈم سے ایسٹ انڈیز کا سفر شروع کیا تھا اور اس کے بعد وہ کبھی واپس نہیں لوٹے تھے۔ کہانی کے مطابق ان کا جہاز ہمیشہ کے لیے اپنا سفر جاری رکھنے کے لیے ڈوب گیا تھا۔ فلائنگ ڈچ مین کو توہم پرست جہاز راں مستقبل کی مشکلات کی ایک علامت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Photo12/Fine Art Photographs
شمالی کوریا کی کشتیاں
جاپان نے حالیہ برسوں میں اپنے ساحلوں سے لاوارث جہازوں اور کشتیوں کو ہٹانے کا کام شروع کیا۔ ان میں سے زیادہ تر بحری جہاز شمالی کوریا سے آئے تھے۔ ان میں سے کچھ میں تو عملے کے افراد زندہ حالت میں بھی ملے جبکہ زیادہ تر لاشیں موجود تھیں۔ کچھ پر شبہ تھا کہ وہ شاید شمالی کوریا سے فرار ہو کر جاپانی پانیوں میں پہنچے تھے۔ دیگر کے بارے میں سوچا گیا کہ شاید وہ مچھیرے تھے، جو سمندر میں بہت آگے تک نکل گئے تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/H. Asakawa
ریئون ان مارو
امریکی ساحلی محافظین نے جاپانی لاوارث جہاز ’ریئون ان مارو‘ کو اپریل 2012ء میں الاسکا کے ساحلوں کے قریب تباہ کر دیا تھا۔ یہ جہاز 2011ء میں جاپان میں آنے والے زلزلے اور سونامی کے بعد لہروں کی نذر ہو گیا تھا۔ یہ جہاز ایک سال تک بحرالکاہل میں بھٹکتا رہا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U.S. Coast Guard
سمندر میں لاپتہ
نینا نامی بادبانی کشتی کی لمبائی پندرہ میٹر کے لگ بھگ تھی۔ یہ کشتی 2013ء میں نیوزی لینڈ سے آسٹریلیا کے سفر کے دوران بحر تسمان میں اچانک غائب ہو گئی تھی۔ اس پر کشتی کے مالک ڈیوڈ ڈائچ، ان کی اہلیہ، ان کا ایک بیٹا اور عملے کے چار ارکان سوار تھے۔ یہ ڈیوڈ کی والدہ کیرل ڈائچ ہیں۔ وہ اپنے بیٹے کی بادبانی کشتی کی ایک تصویر کے ساتھ بیٹھی ہیں۔
تصویر: Imago Images/Zuma Press
سیم رتولنگی پی بی سولہ سو
انڈونیشیا کا جہاز ’سیم رتولنگی سولہ سو‘ اگست 2018ء میں پرسرار طور پر میانمار کے شہر ینگون کے ساحلی علاقے سے ملا تھا۔ میانمار کی نیوی کے مطابق 177 میٹر طویل اس مال بردار جہاز کو کسی کشتی کی مدد سے بنگلہ دیش میں کسی شپ بریکنگ یارڈ تک پہنچایا جا رہا تھا کہ خراب موسم کی وجہ سے وہ تاریں ٹوٹ گئیں، جن کی مدد سے اسے کھینچا جا رہا تھا۔ اس موقع پر تیرہ رکنی انڈونیشی عملے نے اسے لاوارث چھوڑ دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y.A. Thu
ایس وی لوبوو اورلووا
ایک سو میٹر لمبے اس جہاز لوبوو اورلووا کو سابق یوگوسلاویہ میں بنایا گیا تھا۔ اس کا نام سابق سوویت یونین کی ایک اداکارہ کے نام پر رکھا گیا۔ 2010ء میں اس جہاز کو شمالی امریکا کے جزیرے نیو فاؤنڈلینڈ سے کھینچ کر جزائر ڈومینیک کی جانب لایا جا رہا تھا۔ اسی دوران تاریں ٹوٹ گئی تھیں۔ اس کے بعد عملے نے اسے ایک دن کے لیے وہیں چھوڑ دیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جہاز بین الاقوامی پانیوں میں ڈوب گیا تھا۔