امریکہ، جنوبی کوریا کی مشترکہ فوجی مشقوں میں توسیع زیر غور
21 مئی 2022
امریکہ اور جنوبی کوریا نے شمالی کوریا کو خبردار کرنے کے لیے اپنی مشترکہ فوجی مشقوں میں توسیع پر غور کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بات امریکی صدر بائیڈن اور جنوبی کوریا کے نئے صدر یون سوک یول نے سیول میں باہمی ملاقات کے بعد کہی۔
اشتہار
جنوبی کوریائی دارالحکومت میں دونوں حلیف ممالک کے صدور کی اس ملاقات کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن اور جنوبی کوریا کے نئے صدر یون سوک یول نے ہفتہ اکیس مئی کے روز ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن اور سیول نے آپس کی فوجی مشقوں کا دائرہ کار بڑھانے پر غور کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ کمیونسٹ کوریا کی وجہ سے لاحق جوہری خطرات کے پیش نظر پیونگ یانگ کو خبردار رکھا جا سکے۔
سفارتی حل کے امکان کی امید انتہائی کم
امریکی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں نے یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر کیا ہے، جب اس امر کی امید بظاہر انتہائی کم ہے کہ جزیرہ نما کوریا پر پائے جانے والے فوجی تنازعے میں صرف سفارت کاری کے ذریعے کوئی حقیقی پیش رفت یقینی بنائی جا سکتی ہے۔
امریکہ اور جنوبی کوریا کی اعلیٰ ترین قیادت کا یہ فیصلہ ان دونوں ممالک کی گزشتہ قیادت کی سوچ کے بالکل برعکس ہے۔ اس لیے کہ صدر بائیڈن کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور صدارت میں امریکی اور جنوبی کوریائی فوجی مشقوں کا سلسلہ باقاعدہ طور پر ختم کر دینے پر بھی غور کیا تھا اور انہوں نے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ ان کے لیے قربت کے مظہر اور مفاہمانہ کلمات بھی کہے تھے۔
اسی طرح جنوبی کو ریا کے نئے صدر یون سوک یول کے پیش رو مون جے ان بھی اپنے دور اقتدار میں حریف ہمسایہ ریاست شمالی کوریا کے ساتھ مکالمت کی سوچ پر کاربند رہے تھے۔ اس سوچ اور دو طرفہ مکالمت کی خواہش کو تاہم پیونگ یانگ کی طرف سے بار بار مسترد کیا جاتا رہا تھا۔
اشتہار
'تمام خطرات کا مقابلہ مل کر‘
سیول میں اپنی ملاقات کے بعد جو بائیڈن اور یون سوک یول نے شمالی کوریا سے متعلق امریکہ اور جنوبی کوریا کی جس بدلی ہوئی مشترکہ سوچ کا اظہار کیا، یہ بات بھی اسی سوچ کا نتیجہ تھی کہ امریکی صدر بائیڈن نے کہا، ''امریکہ اور جنوبی کوریا مل کر تمام ممکنہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
ساتھ ہی جو بائیڈن اور یون سوک یول نے یہ بات بھی زو دے کر کہی کہ واشنگٹن اور سیول کا حتمی مشترکہ ہدف شمالی کوریا کو پوری طرح غیر جوہری بنانا ہے۔ شمالی کوریا بارہا یہ کہہ چکا ہے کہ وہ اپنے جس جوہری پروگرام پر عمل پیرا ہے، اس کا مقصد امریکہ کی وجہ سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرنا اور واشنگٹن کو پیونگ یانگ کے خلاف کسی بھی جارحانہ اقدام سے باز رکھنا ہے۔
شمالی کوریائی رہنما کے بقول ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔ اپنے اولین دورہ جنوبی کوریا کے دوران انہوں نے کہا کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی خاطر بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
تصویر: Reuters
پہلا قدم
کم جونگ اُن پہلے شمالی کوریائی رہنما ہیں، جنہوں نے کوریائی جنگ میں فائر بندی کے 65 برس بعد جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ کم نے کہا کہ جنوبی کوریا داخل ہوتے ہی وہ ’جذبات کی ایک بڑی لہر میں بہہ نکلے‘۔ جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن سرحد پر کم جونگ اُن کا استقبال کرنے کو موجود تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کی سمٹ کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: KOCIS
نئے تعلقات کے آغاز کا عہد
کیمونسٹ رہنما کم جون اُن نے کہا کہ وہ ہمسایہ ملک جنوبی کوریا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ سن انیس سو ترپن میں کوریائی جنگ کے خاتمے کے بعد سے پہلی مرتبہ کسی شمالی کوریائی رہنما نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا ہے۔ جب کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کی سرحد عبور کی تو جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن نے ان کا استقبال کیا۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
تاریخی مصافحہ
جنوبی کوریا داخل ہونے پر اُن نے اِن سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر کم نے کہا کہ یہ مصافحہ خطے میں قیام امن کی طرف ’افتتاحی قدم‘ ہے۔ کم جونگ اُن کی طرف سے جوہری اور میزائل پروگرام منجمد کرنے کے اعلان کے بعد جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی کا خاتمہ ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔ چین اور امریکا نے بھی دونوں کوریائی ممالک کے رہنماؤں کے مابین اس براہ راست ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
شمالی کوریائی وفد
جنوبی کوریا کا دورہ کرنے والے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ ان کی ہمشیرہ اور قریبی مشیر کم یو جونگ کے علاوہ کمیونسٹ کوریا کے بین الکوریائی تعلقات کے شعبے کے سربراہ بھی تھے۔ اسی طرح جنوبی کوریائی صدر کے ہمراہ ان کے ملک کے انٹیلیجنس سربراہ اور چیف آف سٹاف بھی تھے۔
تصویر: KOCIS
’ہم ایک قوم ہیں‘
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن کے ساتھ سمٹ میں کہا، ’’اس میں کوئی منطق نہیں کہ ہم آپس میں لڑیں۔ ہم تو ایک ہی قوم ہیں۔ چند ماہ قبل کم جونگ اُن کی طرف سے ایسے کلمات سننے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ جنوبی کوریا میں کئی حلقے اس سمٹ پر محتاط انداز سے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔
تصویر: KOCIS
ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ
اس سمٹ کے پہلے دور میں دونوں لیڈروں نے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے علاوہ قیام امن کے امکانات پر بھی بات چیت کی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریائی صدر مُون جے اِن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانے کے موضوع پر انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری سے تبادلہ خیال کیا۔
تصویر: KOCIS
عالمی برداری خوش
1953ء میں کوریائی جنگ میں فائر بندی کے بعد سے مجموعی طور پر یہ تیسرا موقع ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی آپس میں کوئی ملاقات ہوئی۔ جاپان، چین اور روس نے اس ملاقات کو خطے میں قیام امن کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters
مذاکرات جاری رہیں گے
اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک تمام شعبوں میں مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے تمام بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور دونوں ریاستوں کے مابین سفری پابندیوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، کم
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا۔ اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کے لیے پیونگ یانگ حکومت مکمل تعاون کرے گی۔ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک اس تناظر میں جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ تاہم اس بارے میں تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
تصویر: KOCIS
مون جے اِن شمالی کوریا جائیں گے
اس سمٹ کے بعد جنوبی کوریائی صدر کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ صدر مون جے اِن شمالی کوریا کا دورہ کریں گے۔ ممکنہ طور پر وہ رواں برس موسم خزاں میں یہ دورہ کریں گے، جہاں وہ شمالی کوریائی رہنما کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ مون جے اِن کے اس آئندہ جوابی دورے کو بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Alexander Freund
مقامی آبادی خوش
کم جونگ اُن کی جنوبی کوریا آمد پر کوریائی باشندوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کم کو دیکھا اور براہ راست سنا۔ اس موقع پر کئی افراد نے خصوصی لباس بھی زیب تن کر رکھا تھا۔ دونوں سربراہان نے جنوبی کوریائی علاقے میں واقع سرحدی گاؤں پان مُون جوم میں قائم ’پیس ہاؤس‘ یا ’ایوان امن‘ میں ملاقات کی۔
تصویر: DW/A. Freund
11 تصاویر1 | 11
شمالی کوریائی رہنما سے ملاقات کی شرط
امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے جنوبی کوریائی ہم منصب کے ساتھ مل کر شمالی کوریا کے بارے میں دو اور اہم باتیں بھی کیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے شمالی کوریا میں کورونا وائرس کے تیز رفتار پھیلاؤ سے نمٹنے کے لیے کورونا ویکسین فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے، تاہم اس کا کمیونسٹ کوریا نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔
اس کے علاوہ امریکی صدر نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا کہ وہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے کسی ممکنہ بالمشافہ ملاقات پر بھی غور پر کر سکتے ہیں، تاہم اس کے لیے کم جونگ ان کا ایسی کسی ملاقات کے لیے سنجیدہ ہونا بھی لازمی شرط ہو گا۔
م م / ش ر (اے پی، ا ایف پی)
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کی تین ملاقاتیں
امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر گزشتہ تقریباً ایک سال میں تین مرتبہ آپس میں ملاقات کر چکے ہیں۔ ان میں سے پہلی ملاقات سنگاپور، دوسری ہنوئے اور تیسری جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency
شمالی کوریائی سرزمین پر پہنچنے والے پہلے امریکی صدر
تیس جون 2019ء کو ہونے والی یہ ملاقات اس لیے بھی ایک تاریخی واقعہ تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ یوں ایسے پہلے امریکی صدر بن گئے، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں ہی شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ ٹرمپ سیئول سے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس ملاقات کے مقام پر پہنچے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Lamarque
پانمنجوم میں شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھتے ہوئے ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شمالی کوریائی لیڈر کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی حدود میں خیر مقدم کیا اور پھر انہیں لے کر اپنے ملک میں داخل ہو گئے۔ اس تصویر میں ٹرمپ کو شمالی کوریائی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے امریکی صدر کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua News Agency
شاندار بہترین تعلقات
جزیرہ نما کوریا کے غیر فوجی علاقے میں پانمنجوم کے مقام پر ہونے والی اس ملاقات کے بعد کم جونگ اُن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر کے ساتھ تعلقات کو شاندار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ انہی تعلقات کی بدولت مختلف امور سے متعلق پائی جانے والی مشکلات اور رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکے گا۔
تصویر: AFP/Getty Images/B. Smialowski
حیران کن ملاقات کی دعوت
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ جزیرہ نما کوریا کو منقسم کرنے والی اس حد کو عبور کرنا اُؑن کے لیے ایک اعزاز ہے اور یہ تعلقات کو بہتر بنانے کی جانب ایک بڑا قدم بھی ہو گا۔ انہوں نے اس ملاقات کو بہترین دوستی سے بھی تعبیر کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Smialowski
دوسری ملاقات: ویتنامی دارالحکومت ہنوئے میں
امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کی دوسری ملاقات کی میزبانی ویتنام کو حاصل ہوئی۔ دونوں لیڈروں کے قیام اور ملاقات کے مقام کے لیے انتہائی سخت اور غیر معمولی سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔ کم جونگ اُن حسب معمول بذریعہ ٹرین ویتنام پہنچے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Vucci
ہنوئے سمٹ بے نتیجہ رہی
ٹرمپ اور اُن کی ہنوئے میں ملاقات ناکام ہو گئی تھی۔ اس ملاقات میں شمالی کوریائی لیڈر نے اپنے ملک کے خلاف عائد مختلف پابندیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ پابندیاں فوری طور پر امریکی صدر ختم نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان میں سے بیشتر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی طرف سے لگائی گئی تھیں۔
تصویر: Reuters/L. Millis
سنگاپور سمٹ
ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کے درمیان سنگاپور میں ہونے والی پہلی ملاقات تو ایک بار اپنی منسوخی کے بھی بہت قریب پہنچ گئی تھی۔ پھر دونوں لیڈروں کے رابطوں سے یہ ممکن ہوئی۔ یہ ملاقات بارہ جون سن 2018 کو ہوئی تھی۔ کسی بھی امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wallace
سنگاپور سمٹ: مفاہمت کی یادداشت پر دستخط
امریکی صدر اور شمالی کوریا کے لیڈر کے درمیان سنگاپور ملاقات کے بعد دوطرفہ تعلقات اور معاملات کو بہتر بنانے کی یادداشت پر دستخط بھی کیے گئے تھے۔ یادداشت کی اس دستاویز کا تبادلہ پیچھے کھڑے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور شمالی کوریائی خاتون اہلکار کے درمیان ہوا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Ministry of Communications