امریکہ اور شمالی کوریا، نئی مکالمت اگلے ہفتے جنیوا میں
20 اکتوبر 2011 جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان مذاکرات کافی عرصے سے معطل ہیں۔ اب دونوں ملک نئے سرے سے بات چیت پر آمادہ تو ہو گئے ہیں لیکن ان مذاکرت کے بہت نتیجہ خیز ہونے کا امکان انتہائی کم ہے۔
امریکی دفتر خارجہ کے مطابق واشنگٹن اور پیونگ یانگ کے نمائندوں کے مابین براہ راست دو طرفہ مکالمت اب آئندہ ہفتے پیر اور منگل کے روز جنیوا میں ہو گی۔ یہ بات چیت اس سال جولائی میں نیو یارک میں فریقین کے درمیان ہونے والی بات چیت کے بعد سے اولین مذاکرات ہوں گے۔ تاہم ساتھ ہی واشنگٹن میں امریکی دفتر خارجہ نے اس بارے میں خبردار بھی کر دیا کہ اس بات چیت سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہیں کی جانی چاہیئں۔
دفتر خارجہ کے مطابق اس بات چیت کو شمالی کوریا کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں چھ فریقی مکالمت کی بحالی کا نام دینا بھی غلط ہو گا۔
شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام سے متعلق چھ فریقی بات چیت کی بحالی کے بارے میں امریکہ اور جنوبی کوریا کا مؤقف بڑا واضح ہے۔ ان دونوں اتحادی ملکوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی جامع بات چیت کی بحالی سے قبل شمالی کوریا کو یہ ثابت کرنا ہو گا کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں اس بات چیت کا سنجیدگی سے خواہش مند ہے۔ اس کے لیے مثال کے طور پر شمالی کوریا کو اپنی ایٹمی تنصیبات میں یورینیم کی افزودگی کا عمل بند کرنا ہو گا۔ ان تنصیبات میں شمالی کوریا ایسا افزودہ یورینیم تیار کرتا ہے، جو ممکنہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
اس کے برعکس شمالی کوریا کا اصرار ہے کہ چھ فریقی مذاکرات کسی بھی طرح کی پیشگی شرائط کے بغیر بحال ہونے چاہیئں۔ کمیونسٹ کوریا کا یہ وہ مؤقف ہے جس کا اظہار حال ہی میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ال نے ایک روسی خبر ایجنسی کے ساتھ اپنے ایک تحریری انٹرویو میں بھی کیا تھا۔
اس بارے میں کم جونگ ال نے اپنے انٹرویو میں کہا،’ چھ فریقی مذاکرات کی پیشگی شرائط کے بغیر بحالی، تاکہ انیس ستمبر کے مشترکہ اعلامیے پر متوازن طریقے سے عمل درآمد ہو سکے، یہ شمالی کوریا کی وہ اصولی پوزیشن ہے جو ابھی تک تبدیل نہیں ہوئی۔‘
شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں چھ فریقی مکالمت میں کمیونسٹ کوریا، جنوبی کوریا، امریکہ، روس، چین اور جاپان شامل ہیں۔ یہ مکالمت سن دو ہزار تین میں شروع ہوئی تھی۔ ستمبر دو ہزار پانچ میں پیونگ یانگ نے بہت سی ضمانتوں کے بدلے ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق اپنا پورا پروگرام بند کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان ضمانتوں میں سلامتی کی ضمانت، توانائی کے شعبے میں امداد اور جنوبی کوریا کے ساتھ باقاعدہ امن معاہدے کے علاوہ امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام بھی شامل تھا۔
سن دو ہزار سات میں شمالی کوریا نے اپنا پلوٹونیم تیار کرنے والا ایک ایٹمی ری ایکٹر بند بھی کر دیا تھا۔ لیکن ایک سال بعد جب فریقین نے ایک دوسرے پر طے شدہ معاہدے پر پورے خلوص کے ساتھ عمل نہ کرنے کے الزامات لگائے تو یہ مذاکراتی عمل ناکامی کا شکار ہونا شروع ہو گیا تھا۔ پھر اپریل سن دو ہزار نو میں شمالی کوریا نے چھ فریقی مذاکرات سے اپنا باقاعدہ اخراج کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے صرف ایک ماہ بعد شمالی کوریا نے ایک اور ایٹمی تجربہ بھی کر دیا تھا۔ یہ ایٹمی تجربہ شمالی کوریا کی طرف سے کیا جانے والا دوسرا ایٹمی دھماکہ تھا۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت : امتیاز احمد