1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ بدلے گا تو ایران بھی بدلے گا: آیت اللہ خامنہ ائی

گوہر نذیر گیلانی21 مارچ 2009

ایرانی رہنما نے ہفتہ کو کہا کہ جب تک امریکہ صحیح معنوں میں تہران کے تئیں اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتا تب تک مفاہمت ممکن نہیں ہے۔

ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ خامنہ ائی نے کہا کہ ایران اسی صورت میں اپنی پالیسی تبدیل کرے گا اگر امریکہ اپنی پالیسی بدلتا ہےتصویر: AP

ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ خامنہ ائی نے امریکی صدر باراک اوباما کی طرف سے باہمی رابطوں کے نئے سلسلے کے آغاز کی پیشکش پر محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے۔

خامنہ ائی نے کہا کہ اوباما کا نیا ویڈیو پیغام بھی جارحانہ تھا اور اس میں ایران پر بہت سارے الزامات عائد کئے گئے۔خامنہ ائی نے تاہم کہا کہ اگر اوباما امریکی پالیسی میں تبدیلی لائیں گے تو اسلامی جمہوریہ ایران بھی اپنے موقف میں تبدیلی لانے کے لئے تیار ہوگا۔

ایرانی صدر محمود احمد نژاد کے نذدیک امریکہ کی پالیسی جارحانہ اور غیر حقیقت پسندانہ ہےتصویر: AP

اوباما نے اپنے ایک حالیہ ویڈیو پیغام میں تہران حکومت کے ساتھ رابطے بحال کرنے کی پیشکش کی تھی۔ صدر اوباما نے اپنے پیغام میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر ایران تشّدد کے راستے کو ترک کرکے امن کے راستے کا انتخاب کرتا ہے تو وہ بین الاقوامی برادری میں ایک مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔ اوباما نے مزید کہا کہ ان کی انتظامیہ ایران کے ساتھ تمام تنازعات کو سفارتی سطح پر حل کرنے کی خواہاں ہے۔

ایک ایرانی خاتون امریکی صدر باراک اوباما کے ویڈیو پیغام کو ٹیلی ویژن پر بڑے غور سے دیکھ اور سن رہی ہیںتصویر: AP

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ خاوئیر سولانا نے بھی امریکی صدر باراک اوباما کی اس پیشکش کا خیرمقدم کیا تھا۔ خاوئیر سولانا نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ ایرانی حکومت امریکی صدر اوباما کی نئی پیشکش کا مثبت جواب دے گی۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ایران کے حوالے سے امریکی صدر کے ویڈیو پیغام کا خیر مقدم کیا تھاتصویر: AP

جمعہ کو نوروز یعنی ایران میں نئے سال کی آمد کے موقع پر آیت اللہ علی خامنہ ائی نے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت تہران کے جوہری پروگرام کو روک نہیں سکتی ہے۔ خامنہ ائی نے یہ بھی کہا تھا کہ اب عالمی رہنما اس بات کو جان گئے ہیں کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو طاقت کے بل بوتے پر روکا نہیں جاسکتا ہے۔

1980ء سے ایران اور امریکہ کے سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔

دریں اثناء ایرانی صدر کے پریس ایڈوائزر نے بھی اوباما کی پیشکش پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے صدر احمدی نژاد کے اس دیرینہ موقف کو دہرایا تھا کہ امریکہ کو ایران کے قریب آنے سے قبل ان کے بقول اپنی ’’غیر حقیقت پسندانہ اور جارحانہ پالیسی‘‘ میں لچک پیدا کرنا ہوگی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں