1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ بھارت سول جوہری معاہدے کی آخری رکاوٹ دُور

Abid Hussain2 اکتوبر 2008

امریکی صدر بُش کی جانب سے بھارت اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے سول جوہری معاہدے کو امریکی خارجہ پالیسی کا کلیدی نکتر قرار دیا گیا ہے۔ امریکی سینٹ نے اِس معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔

امریکی کانگریس کی بلڈنگ کیپیل ہِلتصویر: Illuscope

امریکی بھارتی جوہری معاہدے پر امریکی سینٹ میں ووٹنگ کا عمل بھی مکمل ہو گیا۔ امریکی سینٹ میں بحث کے دوران کچھ ایسے خدشات بھی بیان کئے گئے کہ مستقبل میں اگر بھات کوئی اور جوہری اسلحے کا ٹیسٹ کرنے کا پروگرام بنائے تو پھر صورت حال اور معاہدے کی ہیت کیا ہو گی۔

بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کے لئے سول جو ہری معاہدے کی منظوری خاصا اہم قدم تصور کیا جا رہا ہے۔تصویر: picture-alliance/Bildfunk

سینٹ میں بحث کے دوران کچھ اراکین نے تجویز کیا کہ ترمیم سے واضح کیا جائے کہ اگر بھارت کوئی جوہری اسلحے کا ٹیسٹ کرتا ہے تو اُس کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ ترمیم کے حق میں ڈیمو کریٹ اراکین تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ووٹنگ میں ایسی کسی ترمیم کے منظور ہونے کے امکان بہت کم تھے۔

بھارت کی جانب سے یہ مؤقف رکھا گیا تھا کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور وہ جوہری ٹیسٹ کرنے کا حق رکھتا ہے مگر بش انتظامیہ نے واضح کیا تھا کہ اگر ایسا کیا گیا تو معاہدے کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ امریکی سینٹ میں بھی دوران بحث یہ سننے میں آیا کہ اگر بھارت نے کوئی جوہری اسلحے کا ٹیسٹ کیا تو یہ معاہدے ختم ہو جائے گا۔

سن دو ہزار چھ میں امریکی صدر بُش نے بھارت کا دورہ کیا تھا جس میں سول جوہری معاہدہ طے پایا تھا۔تصویر: AP

اِس منظوری کے بعد بھارت کو مغربی جوہری منڈیوں تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔ بھارت کی فوجی جوہری تنصیبات عالمی جوہری معائنہ کاروں کے دائرے سے باہر ہے۔ بھارت امریکہ کے درمیان طے ہونے والے سول جوہری معاہدے کے بل کو امریکی ایوان نمائندگان نے گزشتہ ویک اینڈ پر بھاری فرق سے منظور کر لیا تھا۔ امریکی ایوان نمائندگان میں اِس معاہدے کی منظوری کے حق میں دو سو اٹھانوے اور مخالفت میں ایک سو سترہ ووٹ ڈالے گئے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں