پاکستان میں دفاعی امور کے ماہرین نے بھارت اور امریکا کے درمیان معاہدے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے خطے میں اسٹریجک توازن متاثر ہوگا، جو پاکستان کے حق میں نہیں ہوگا۔
اشتہار
واضح رہے کہ نئی دہلی اور واشنگٹن میں تعلقات گزشتہ دو عشروں سے بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان اس دوران دفاع سمیت مختلف شعبوں میں کئی معاہدے بھی ہوئے ہیں۔ لیکن موجودہ معاہدہ، جو بنیادی طور پر چین مخالف خیال کیا جارہا ہے، پاکستان کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت کا روایتی جنگ میں کوئی مقابلہ نہیں ہے کیونکہ نئی دہلی اپنی عددی برتری کے باعث اس محاذ پر اسلام آباد سے بہت آگے ہے۔ تاہم غیر روایتی جنگ میں اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان ایک باہمی تباہی کا خوف ہے، جس کی وجہ سے بھارت پاکستان کو چیلنج کرنے سے اعتراز کرتا ہے لیکن اب اس معاہدہ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ بھارت کو ایک ایج مل جائے گی کیونکہ معاہدے کی بدولت بھارتی فضائیہ کے پاس سٹیلائیٹ ڈیٹا امریکی معاہدے کی وجہ سے موجود ہوگا۔ جس سے اس کے ٹارگٹ زیادہ مستند اور بہتر ہو سکتے ہیں۔
اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا خیال ہے کہ اس معاہدے سے خطے میں جنگ کی خواہش مذید پروان چڑھے گی۔ ''بھارت میں پہلے ہی ایک ایسی حکومت ہے جو مہم جوئی پر یقین رکھتی ہے۔ وہ نہ صرف چین کو للکار رہی ہے بلکہ پاکستان کو بھی وقتا فوقتا دھمکیاں دیتی ہے۔ ایسی صورت میں اس معاہدے کی بدولت بھارت کواسٹریجک ایج مل جائے گی، جس کو وہ استعمال کر سکتا ہے۔ معاہدے سے خطے میں اسٹریجک توازن متاثر ہوگا، جس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس افغانستان کارڈ ہے لیکن وہ ابھی اسے استعمال نہیں کر رہا۔ ''میرے خیال میں اس سے پاکستان اور امریکا کے درمیان بد گمانی بھی بڑھیں گی، جو دونوں ممالک کے لیے اچھی نہیں۔‘‘
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کا خیال ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان کے لیے بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ ''کہا جارہا ہے کہ یہ صرف چین کے خلاف ہے لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ بھارت ایسی سہولت کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرے گا۔ وہ پہلے ہی پاکستان کے خلاف مہم جوئی کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس معاہدے کے بعد اگر صورت حال بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدہ ہوتی ہے، تو بھارت اس کو ایک ایج کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔‘‘
اشتہار
اسلام آباد کے لیے پیغام
پشارو یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر محمد سرفراز خان کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ اسلام آباد کے لیے ایک پیغام ہے۔ ''میرے خیال میں امریکا نے یہ پیغام دیا ہے کہ آپ اگر چین کے ساتھ قربت بڑھائیں گے تو پھر ہم یہ کریں گے۔ پاکستان کو ادراک ہے کہ سٹیٹلائیٹ یا اسپیس ٹیکنالوجی میں چین اتنا ایڈوانس نہیں ہے جتنا کہ امریکا، تو پاکستان کے پاس اس وقت کوئی ایسا راستہ نہیں کہ وہ بھارت کے ممکنہ ایج کو ختم کر سکے۔ روس اسپیس اور سٹٹیلائیٹ میں امریکا کے قریب ہے اور بعض معاملات میں آگے بھی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا روس اس طرز کا پاکستان سے کوئی معاہدہ کرے گا۔ تو اسلام آباد میں تشویش اس ہی وجہ سے ہے۔‘‘