ہزاروں طلبہ بھی ٹرمپ انتظامیہ کی 19 ممالک کے شہریوں پر عائد سفری پابندیوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے طلبہ نے امریکہ آنے کے لیے وقت اور پیسہ لگایا مگر اب خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔
غیر ملکی طلبہ پر پابندی عائد کرنے کے صدر ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف مظاہرہتصویر: Rick Friedman/AFP
اشتہار
اپنے وطن افغانستان میں طالبان کی طرف سے خواتین پر کالج جانے کی پابندی کے بعد، بہارا ساغری نے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔
اکیس سالہ ساغری نے کئی سال تک روزانہ آٹھ گھنٹے تک انگریزی کی مشق کی اور بالآخر ایلی نوائے کی ایک پرائیویٹ لبرل آرٹس کالج میں بزنس ایڈمنسٹریشن کورس میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ وہ امید کر رہی تھیں کہ اس سال موسم خزاں میں امریکہ پہنچ جائیں گی، لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سفری پابندی کی وجہ سے ان کے منصوبے ایک بار پھر ناکام ہو گئے۔
ساغری نے کہا، ''آپ سوچتے ہیں کہ آخرکار آپ اپنے خواب کی حقیقت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور پھر اچانک کچھ ہو جاتا ہے اور سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔‘‘
ہزاروں طلبہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو ٹرمپ انتظامیہ کی سفری پابندی اور 19 ممالک کے شہریوں پر عائد پابندیوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سے طلبہ نے امریکہ آنے کے لیے وقت اور پیسہ لگایا مگر اب خود کو پھنسے ہوئے محسوس کر رہے ہیں۔
کچھ ممکنہ بین الاقوامی طلبہ اس موسم خزاں میں امریکی کیمپسز میں داخلہ کی پیشکش کے باوجود وہاں پہنچ نہیں سکے کیونکہ ویزا درخواستوں میں رکاوٹیں پیش آئیں، جنہیں ٹرمپ انتظامیہ نے سخت جانچ کے دوران مزید سست کر دیا۔ کچھ نے وسیع تر امیگریشن کریک ڈاؤن اور طلبہ کی قانونی حیثیت ختم ہونے کے باعث اپنا ارادہ بدل لیا۔
لیکن سب سے بڑے مسائل ان طلبہ کو پیش آئے جو براہِ راست سفری پابندی سے متاثر ہوئے۔ گزشتہ سال، محکمہ خارجہ نے مئی سے ستمبر کے درمیان 19 متاثرہ ممالک کے افراد کو 5,700 سے زیادہ افراد کو ایف ون اور جے ون ویزے (جو غیر ملکی طلبہ اور محققین کے لیے ہوتے ہیں) جاری کیے۔ ان میں سے نصف سے زیادہ ویزے ایران اور میانمار کے شہریوں کو دیے گئے۔
تعلیمی معیار کی وجہ سے بیشتر طلبہ کے لیے امریکی یونیورسٹیاں پہلی پسند ہیںتصویر: Kate Payne/AP/dpa/picture alliance
امریکہ اب بھی طلبہ کی پہلی پسند
ایران کے شہر شیراز سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ پویا کرامی نے اپنی تعلیمی تلاش صرف امریکہ پر مرکوز رکھی۔ انہوں نے کہا کہ سائنس میں تحقیق کے وہ مواقع کسی اور ملک میں نہیں۔ وہ اس موسم خزاں میں کینساس کے پٹس برگ اسٹیٹ یونیورسٹی میں پولیمر کیمسٹری پڑھنے جا رہے تھے، لیکن سفری پابندی کے باعث اپنے منصوبے ملتوی کرنا پڑے۔
اشتہار
کرامی نے داخلہ اگلے سال تک مؤخر کر دیا ہے اور اب بھی امید لگائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے سفارتخانے کی انٹرویو کی تیاری کر رہے ہیں اور امریکی سیاستدانوں سے رابطہ کر رہے ہیں کہ طلبہ پر پابندیاں ختم کی جائیں۔
انہوں نے کہا، ''میں اس کے لیے جو کر سکتا ہوں، کر رہا ہوں۔‘‘
مکمل سفری پابندی افریقہ، ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور کیریبین کے 12 ممالک کے شہریوں پر اثرانداز ہوئی ہے۔ یہ زیادہ تر افراد کو نئے ویزے حاصل کرنے سے روکتی ہے، اگرچہ کچھ کو استثنیٰ حاصل ہے جیسے گرین کارڈ ہولڈرز، دوہری شہریت رکھنے والے اور کچھ کھلاڑی۔ دیگر سات ممالک کے لیے بھی سخت پابندیاں ہیں جو طلبہ ویزوں پر لاگو ہوتی ہیں۔
جون میں جب ٹرمپ نے پابندی کا اعلان کیا تو انہوں نے وجہ بیان کی کہ کچھ ممالک کے ویزا اوور اسٹے کی شرح بہت زیادہ ہے اور غیر مستحکم یا مخالف حکومتوں سے قومی سلامتی کو خطرہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ ممالک کے اسکریننگ سسٹم ''ناکافی‘‘ ہیں اور یہ پابندی تب تک برقرار رہے گی جب تک ''خامیاں دور‘‘ نہیں ہوتیں۔
حصول علم کے لیے طالب علم کن ممالک کا رخ کرتے ہیں؟
ایک جائزے کے مطابق گزشتہ برس پانچ ملین سے زائد طالب علموں نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دیگر ممالک کا رخ کیا۔ سن 2016 کے دوران اعلیٰ تعلیم کے کے حصول کے لیے بیرون ملک جانے والے طلبا کے پسندیدہ ترین ممالک پر ایک نظر۔
تصویر: Fotolia/Monkey Business
1۔ امریکا
امریکا غیر ملکی طالب علموں کی پسندیدہ ترین منزل ہے۔ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے والوں میں سے 19 فیصد نے امریکی جامعات کا انتخاب کیا۔
تصویر: Imago Images/Xinhua/W. Lie
2۔ برطانیہ
طالب علموں کی دوسری پسندیدہ ترین منزل برطانیہ ہے۔ برطانوی یونیورسٹیوں میں 8.5 فیصد بین الاقوامی طالب علم زیر تعلیم رہے۔
تصویر: Migrant Voice
3۔ آسٹریلیا
تیسرے نمبر پر بھی انگریزی زبان میں تعلیم دینے والا ایک اور ملک آسٹریلیا رہا۔ مجموعی طور پر بین الاقوامی طالب علموں میں سے 6.6 فیصد نے آسٹریلوی جامعات کا انتخاب کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. He
4۔ جرمنی
جرمنی قومی سطح پر انگریزی زبان نہ بولنے والے ممالک میں پہلے نمبر پر رہا اور 4.9 فیصد انٹرنیشنل طلبا نے جرمن جامعات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: picture alliance/ZB/J. Woitas
5۔ فرانس
دنیا بھر سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک جانے والوں میں سے فرانس کے حصے میں 4.8 فیصد طالب علم آئے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/M. Clement
6۔ روس
غیر ملکی طالب علموں کی چھٹی پسندیدہ منزل روس تھا، جہاں مجموعی طور پر انٹرنیشنل طالب علموں میں سے 4.8 فیصد نے تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: Getty Images/J. Koch
7۔ کینیڈا
کینیڈا میں بھی تعلیم انگریزی زبان میں دی جاتی ہے۔ 3.7 فیصد غیر ملکی طالب علموں نے اعلیٰ تعلیم کے لیے کینیڈا کی جامعات کو ترجیح دی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Bobylev
8۔ جاپان
سن 2016 کے دوران 2.8 فیصد بین الاقوامی طلبا نے جاپان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Bridgestone World Solar Challenge
9۔ چین
چینی کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد مجموعی عالمی تعداد کا 2.8 فیصد بنتی ہے۔
تصویر: DW/Vivien Wong
10۔ ملائیشیا
ملائیشیا غیر ملکی طالب علموں کی دسویں پسندیدہ منزل رہا، جہاں کی جامعات میں انٹرنیشنل سٹوڈنٹس کی تعداد کے 2.4 فیصد حصے نے حصول تعلیم کا فیصلہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/A. Cupak
10 تصاویر1 | 10
خاندانوں کی امیدیں طلبہ سے وابستہ
میانمار میں ایک 18 سالہ طالب علم کے خاندان نے اس کی تعلیم کو سب سے بڑی ترجیح دی اور اسے بیرون ملک بھیجنے کے لیے اپنی آمدنی بچائی۔ خاندان نے اپنی استحکام کو خطرے میں ڈال دیا تاکہ اسے بہتر زندگی کا موقع ملے۔ اس طالب علم نے، جس نے اپنا اصل نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی اور صرف اپنی عرفیت "گو گو" بتائی، کہا کہ وہ امریکی یا میانمار حکومت کی تنقید سے بچنا چاہتا ہے۔
اس نے بتایا کہ جب اس نے اپنی فیملی چیٹ میں یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا کا لیٹر شیئر کیا تو سب نے خوشی کے ایموجیز بھیجے۔ لیکن ایک رات اس کی والدہ نے اسے اٹھایا اور امریکی سفری پابندی کی خبر بتائی۔ لمحوں میں اس کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے۔
میانمار میں اس کی عمر کے بہت سے طلبہ فوج میں بھرتی کر لیے گئے ہیں یا مزاحمتی گروہوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ خانہ جنگی کے دوران وہ امریکہ میں عام آزادیوں جیسے اکیلے اسکول جانا یا اسپورٹس میں حصہ لینے کا انتظار کر رہا تھا۔
گو گو نے کہا، ''میں مکمل طور پر امریکہ کے لیے پرعزم تھا، تو یہ سب میرا دل توڑ دیتا ہے۔‘‘
تعلیم کہاں کہاں اور کیسے کیسے
تعلیم ایک بنیادی حق ہے اور سیکھنے کا عمل پوری دنیا میں جاری ہے لیکن بچے کن حالات میں تعلیم حاصل کرتے ہیں؟ یہ عمل پوری دنیا میں بڑا متنوع ہے۔ دنیا کے مختلف اسکولوں کا ایک چھوٹا سا سفر۔
تصویر: Reuters/B. Kelly
افغانستان
مہاجرہ ارمانی افغانستان کے شمالی شہر جلال آباد میں بچیوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔ مشکل اور نامساعد حالات کے باوجود اب افغانستان میں اسکول جانے والی چھوٹی عمر کی بچیوں کی تعداد چوہتر فیصد ہو چکی ہے۔
تصویر: Reuters/Parwiz
جاپان
ٹوکیو کے ایک اسکول میں بچے دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں۔ جاپانی نظام تعلیم کا شمار دنیا کے بہترین نظاموں میں ہوتا ہے۔ جاپانی اسکول سسٹم دنیا کے لیے رول ماڈل بن چکا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Hanai
برازیل
برازیل کے ان بچوں کا اسکول مسلسل ہلتا رہتا ہے۔ برازیلی دریاؤں پر بنائے جانے والے ایسے سرکاری اسکولوں کا تعلیمی معیار بہت اچھا نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہاں کا امیر یا متوسط طبقہ اپنے بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیجتا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Kelly
امریکا
امریکا کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے لیکن تعلیمی میدان میں امریکا بھی عدم مساوات کا شکار ہے۔ اسکولوں کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ لاطینی امریکی نسل کے بچوں اور سیاہ فاموں کی نسبت سفید فام بچوں کو اچھی تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Young
ویتنام
تیسری جماعت کے یہ بچے بغیر بجلی اور بغیر کتابوں کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ استانی بچوں کو مقامی زبان ’ہمونگ‘ سکھا رہی ہیں۔ لیکن خراب تعلیمی حالات کے باوجود ویتنام کے طالب علم بین الاقوامی ’پیزا سروے‘ میں اپنا مقام بہتر بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kham
برطانیہ
انگلینڈ میں اسکول یونیفارم پہننے کی ایک طویل روایت ہے۔ جرمنی اور کئی دیگر یورپی ملکوں کے برعکس برطانیہ میں طلبہ کا ایک جیسا لباس ضروری ہے۔ یہ روایت کب اور کہاں سے چلی، واضح نہیں ہے اور نہ ہی ملک میں ایسا کوئی قانون ہے، جو طلبا و طالبات کی یونیفارم سے متعلق وضاحت کرتا ہو۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
پاکستان
پاکستان میں نجی اسکولوں کا معیارِ تعلیم سرکاری اسکولوں سے بہتر سمجھا جاتا ہے لیکن ایسے غریب شہری بھی موجود ہیں، جو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھی بھیجنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اسلام آباد کے ماسٹر ایوب کھلے آسمان تلے ایسے ہی غریب اور نادار بچوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
مراکش
مراکش کے دارالحکومت رباط میں پرائمری اسکول کے کمرے اکثر رنگین ہوتے ہیں۔ ابتدائی سالوں میں بچوں کے اسکول جانے کی شرح بہت اچھی ہے اور تقریباﹰ بانوے فیصد بچے بچیاں اسکول جاتے ہیں۔ پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد نصف رہ جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/Y. Boudlal
کینیا
اس افریقی ملک میں سن دو ہزار تین سے تمام بچے بغیر کوئی فیس ادا کیے پرائمری اسکول جا سکتے ہیں۔ تاہم اس نئے قانون کے بعد ضروری سرمایہ کاری نہیں کی گئی اور اب اسکولوں میں سہولیات کم اور بچے زیادہ ہیں۔
تصویر: Reuters/N. Khamis
ملائشیا
اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے عالمی پروگرام ’پیزا‘ کے مطابق ملائشیا کے اسٹوڈنٹس اپنے آپ خوش قسمت ترین قرار دیتے ہیں۔ اس ملک کی ساٹھ فیصد آبادی مسلمان ہے۔ یہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد مدرسوں میں بھی جاتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Harris
یوکرائن
اس ملک میں بچوں کو پہلی کلاس میں ہی کوئی نہ کوئی غیر ملکی زبان سکھانا شروع کر دی جاتی ہے جبکہ کئی اسکولوں میں پانچویں کلاس میں دوسری غیر ملکی زبان سیکھنا بھی لازمی ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Garanich
چلی
لگتا تو نہیں لیکن یہ پہلی کلاس کے طلبا و طالبات ہیں۔ چلی کے دارالحکومت میں یہ خواتین و حضرات شام کی کلاسیں لیتے ہیں۔ چلی میں تعلیمی نظام تقریباﹰ مکمل طور پر نجی شعبے کے پاس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں غریب گھرانے اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھجوا سکتے۔
تصویر: Reuters/I. Alvarado
12 تصاویر1 | 12
متبادل کی تلاش
افغان طالبہ ساغری نے جولائی میں پاکستان میں اپنی ویزا انٹرویو اپائنٹمنٹ کو اگست تک مؤخر کیا لیکن پھر منسوخ کر دیا۔ ناکس کالج نے اس کی داخلہ مؤخر کرنے کی درخواست رد کر دی۔
بعد میں اس نے یورپ میں کالجوں میں درخواست دی لیکن داخلے کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک جرمن یونیورسٹی نے کہا کہ اسے انگریزی کا دوبارہ امتحان دینا ہو گا کیونکہ پرانا اسکور ختم ہو چکا ہے، لیکن افغانستان میں سیاسی حالات کے باعث پہلی بار امتحان دینا بھی مشکل تھا۔
اسے اب پولینڈ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ کی پیش کش ملی ہے بشرطیکہ وہ فیس پہلے ادا کرے۔ اس کی درخواست تاحال جانچ کے عمل میں ہے۔
ایران کے 28 سالہ گریجویٹ عامر بھی سفری پابندی کی وجہ سے یونیورسٹی آف پینسلوینیا میں وزیٹنگ اسکالر کے طور پر نہیں جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ موقع ضائع ہونے کے بعد تحقیق پر توجہ دینا مشکل ہے۔
ان کے پروفیسر نے ان کی تحقیق کی پوزیشن اگلے سال تک مؤخر کر دی ہے، لیکن سامر نے کہا کہ یہ ''اندھیرے میں تیر چلانے‘‘ جیسا ہے۔ وہ یورپ میں مواقع دیکھ رہے ہیں، لیکن اس کے لیے نئے زبان سیکھنے اور وقت لگانے کی ضرورت ہو گی۔
انہوں نے کہا، ''آپ دنیا کو مثالی نظر سے دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ لگتا ہے کہ اگر میں محنت کروں، اگر میں باصلاحیت ہوں، اگر میں تعاون کروں تو کہیں نہ کہیں جگہ ہے۔ اور پھر آپ کو پتا چلتا ہے کہ نہیں، شاید لوگ آپ کو وہاں نہیں چاہتے۔ یہ برداشت کرنا مشکل ہے۔‘‘