1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

ایران میں محمد اسلامی دوبارہ جوہری پروگرام کے سربراہ مقرر

10 اگست 2024

امریکی تعلیم یافتہ اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کا شکار محمد اسلامی ایرانی فوجی دفاعی صنعت میں کام کا طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ ایران اپنے جوہری پروگرام کی وجہ سے سخت مغربی پابندیوں کا شکار ہے۔

محمد اسلامی ایرانی فوجی دفاعی صنعت میں کام کا طویل تجربہ رکھتے ہیں
محمد اسلامی ایرانی فوجی دفاعی صنعت میں کام کا طویل تجربہ رکھتے ہیںتصویر: Vahid Salemi/AP/picture alliance

ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان  نے امریکہ  سے تعلیم یافتہ اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کے شکار  محمد اسلامی کو دوبارہ ملک کے جوہری شعبے کا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔ اسلامی سولہ سال قبل اقوام متحدہ کی پابندیوں کی زد میں آئے تھے۔

 سڑسٹھ سالہ سلامی ایران کے سویلین جوہری پروگرام کے سربراہ کے طور پر اپنا کام جاری رکھیں گے اور ملک کے متعدد نائب صدور میں سے ایک کے طور پر بھی خدمات انجام دیں گے۔

صدر مسعود پزشکیان کی جانب سے اسلامی کی دوبارہ تقرری ایک ایسے وقت ہوئی ہے، جب 2015ء کے جوہری معاہدے کے خاتمے کے بعد مغرب کی طرف سے ایران پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔

اسلامی آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گورسی کے ہمراہ تصویر: Tasnim

 پزشکیان نے اپنی صدارتی مہم  کے دوران کہا تھا کہ وہ اس جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔

اقوام متحدہ نے 2008ء میں اسلامی پر ''ایران کی حساس جوہری سرگرمیوں کے پھیلاؤ یا جوہری ہتھیاروں کی ترسیل کے نظام کی ترقی میں ملوث ہونے، اس کے ساتھ براہ راست منسلک ہونے یا مدد فراہم کرنے‘‘ کی وجہ سے اس وقت پابندی عائد کی تھی، جب وہ ایران کی دفاعی صنعتوں کی تربیت اور تحقیقی ادارے کے سربراہ تھے۔

 انہیں 2021ء میں مرحوم صدر ابراہیم رئیسی نے پہلی بار ایران کے جوہری شعبے کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اس سے قبل 2018 ء سے، اعتدال پسند سابق صدر حسن روحانی کے دور میں اسلامی نے ٹرانسپورٹ اور شہری ترقی کے وزیر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔

 ان کے پاس ایران کی عسکری صنعتوں میں کام کرنے کا برسوں کا تجربہ ہے اور  وہ حال ہی میں تحقیق اور صنعت کے ذمہ دار نائب وزیر دفاع کے طور پر کام کر چکے ہیں۔

اسلامی نے ڈیٹرائٹ یونیورسٹی آف مشی گن اور  اوہائیوکی یونیورسٹی آف ٹولیڈو سے سول انجینئرنگ میں ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔

نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے سن دو ہزار پندرہ کے جوہری معاہدے کی بحالی کا عزم کر رکھا ہےتصویر: Iranian Presidency/Anadolu/picture alliance

 امریکہ، فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنی جوہری  سرگرمیاں اس حد سے کہیں زیادہ بڑھا رہا ہے جس پر اس نے 2015ء کے معاہدے میں اتفاق کیا تھا اور تہران اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے نگراں ادارے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ تعاون کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔

 ایران نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر الزام لگایا ہے کہ وہ اُن اقتصادی پابندیوں کا اطلاق جاری رکھے ہوئے ہیں، جو معاہدے کے تحت اٹھائی جانے والی تھیں۔  تہران نے اصرار کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے، کینسر کے مریضوں کے علاج کے لیے ریڈیو آئسوٹوپس بنانے اور بجلی پیدا کرنے کے لیے ہے اور  آئی اے ای اے کی مسلسل نگرانی میں رہتا ہے۔

 ایران جنوبی بندرگاہی قصبے بوشہر میں اپنے واحد آپریشنل 1,000 میگاواٹ کے ری ایکٹر کی استعداد بڑھانے کے لیے دو جوہری توانائی کی تنصیبات تعمیر کر رہا ہے۔ یہ ری ایکٹر  2011ء میں روس کی مدد سے آن لائن ہوا تھا۔

اپنے طویل مدتی توانائی کے منصوبے کے تحت ایران کا مقصد 20,000 میگاواٹ جوہری بجلی کی پیداواری صلاحیت تک پہنچنا ہے۔ 

حالیہ مہینوں میں ایران بھر میں شہریوں کو بجلی کی بندش کا سامنا رہا ہے۔

ش ر⁄ م ا (اے پی)

ایرانی جوہری معاہدہ: ملکی عوام کتنے پر امید ہیں؟

03:11

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں