امریکہ غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے پرعزم ہے، انٹونی بلنکن
1 مئی 2024امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بدھ کے روز اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں کا آغاز کرتے ہوئے حماس سے جنگ بندی کے معاہدے کو قبول کرنے کے مطالبے کی تجدید کی۔ وہ غزہ پٹی میں عام شہریوں تک پہنچنے والی امداد کو بڑھانے کے لیے بھی زور دے رہے ہیں، جہاں اقوام متحدہ نے خوراک کی شدید قلت کی وجہ سے ممکنہ قحط سے بھی خبردار کیا ہے۔
بلنکن نے تل ابیب میں اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ سے بات چیت کے آغاز پر کہا، ''جب ہم یرغمالیوں کو گھر پہنچانے کے لیے جنگ بندی معاہدے کی خاطر انتھک عزم کے ساتھ کام کر رہے ہیں، تو ایسے میں ہمیں غزہ کے لوگوں پر بھی توجہ مرکوز کرنا ہو گی، جو حماس کی وجہ سے اس دوطرفہ فائرنگ میں مصائب کا شکار ہیں۔‘‘
بلنکن کا مزید کہنا تھا، ''میز پر ایک تجویز ہے اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے، کوئی تاخیر نہیں، کوئی عذر نہیں۔ یرغمالیوں کو ان کے اہل خانہ تک پہنچانے کا وقت اب ہے کیونکہ اب تک بہت سا وقت گزر چکا ہے۔‘‘
سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے اور اس کے جواب میں غزہ پر اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے آغاز کے بعد سے یہ امریکی وزیر خارجہ کا مشرق وسطیٰ کا ساتواں دورہ ہے۔ وہ اپنے موجودہ وسیع تر دورے کے آخری مرحلے پر اسرائیل پہنچے ہیں۔ امریکی وزیرخارجہ نے آج بدھ کے روز اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے بھی ملاقات کی۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی سے متعلق اسرائیلی تجاویزکے مسودے کا جائزہ لے رہی ہے۔ خیال رہے کہ اسرائیل، امریکہ، جرمنی، یورپی یونین اور دیگر حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
فرانسیسی وزیر خارجہ کا ممکنہ دورہ مصر
فرانسیسی سفارتی ذرائع کے مطابق ملکی وزیر خارجہ اشٹیفان سیژورنے کے ان کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران ایک غیر طے شدہ پروگرام کے مطابق قاہرہ میں رکنے کی توقع ہے کیونکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے اسرائیل اور حماس کے مابین مصری دارالحکومت میں جاری بالواسطہ مذاکرات اس وقت ایک نازک موڑ پر ہیں۔
ذرائع نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ فرانسیسی وزیر کا اچانک دورہ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی کی منزل تک پہنچنے کے لیے مصر کی کوششوں کے تناظر میں ہے۔ مصر کی جانب سےتعطل کا شکار مذاکرات کو بحال کرنے کے لیے ایک نئے سرے سے دباؤ کے بعد جنگ بندی کے لیے سفارتی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔
سیژورنے نے منگل کے روز اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ کے جنوبی شہر رفح میں ایک بڑی فوجی کارروائی شروع کرنے کے منصوبے کے ساتھ آگے بڑھنا ایک ''برا خیال‘‘ ہو گا، جس سے کچھ بھی حل نہیں ہو گا۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں پولیس کارروائی
امریکہ میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس (یو سی ایل اے) کیمپس میں فلسطین اور اسرائیل کے حامی مظاہرین کے مابین پرتشدد جھڑپوں کی اطلاعات پر پولیس کو طلب کر لیا گیا ہے۔ شہر کے میئر کے ترجمان زیک سیڈل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ''محکمہ پولیس کیمپس میں مدد کے لیے (یونیورسٹی کے چانسلر کی) درخواست کا فوری جواب دے رہا ہے۔‘‘
ان جھڑپوں کی ویڈیو فوٹیج میں مظاہرین کو ایک دوسرے پر لاٹھیاں برساتے اور رکاوٹیں توڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے اطلاع دی ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے حامی گروپوں کے درمیان جھڑپیں آدھی رات کے بعد شروع ہوئیں۔
لاس اینجلس ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل کے حامی مظاہرین نے سیاہ لباس اور سفید ماسک پہنے ہوئے فلسطین کے حامی مظاہرین کی طرف سے یونیورسٹی کیمپس میں کھڑی کی گئی رکاوٹوں پر حملہ کیا۔
یو سی ایل اے کی اسٹریٹیجک کمیونیکیشنز کے شعبے کی وائس چانسلر میری اوساکو نے ایک بیان میں کہا، ''آج رات کیمپس میں تشدد کی ہولناک کارروائیاں ہوئیں اور ہم نے فوری طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مدد کے لیے بلایا۔ فائر ڈیپارٹمنٹ اور طبی عملہ جائے وقوعہ پر ہے۔ ہم اس بے ہودہ تشدد سے تنگ ہیں اور اسے ختم ہونا چاہیے۔‘‘
غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد اب ساڑھے چونیتس ہزار سے زائد
غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر کے بعد سے غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں میں اب تک ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد مزید اضافے کے بعد اب 34,568 ہو چکی ہے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ وزارت صحت کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں اسرائیلی حملوں میں مزید کم از کم 33 ہلاکتیں ہوئیں۔
اس وزارت نے مزید کہا کہ غزہ پٹی پر اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں کے نتیجے میں اب تک کل 77,765 افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔
غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے اس بہت گنجان آباد لیکن چھوٹی سی ساحلی پٹی کی تقریباً 80 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ اقوام متحدہ اور کئی بین الاقوامی امدادی اداروں کے مطابق غزہ پٹی میں ہزارہا شہری قحط کے دہانے پر ہیں۔
ش ر⁄ ا ا، م م (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)