امریکہ غیر ضروری تنقید سے احتراز کرے، زرداری
9 نومبر 2011ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق صدر زرداری نے یہ بات امریکی کانگریس کے ایک وفد کے ساتھ ملاقات میں کی۔ اس ملاقات کے دوران پاک امریکہ دوطرفہ تعلقات، سٹریٹیجک ڈائیلاگ، تعمیر نو کے مواقع ، دہشتگردی کے خلاف جنگ اور خطے کے علاوہ افغانستان کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق صدر زرداری نے غلط فہمیوں اور ان کے غلط اثرات سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کمزور معیشت کا حل امداد کو نہیں بلکہ تجارت کو سمجھتی ہے۔ پاکستانی صدر نے کہا کہ عسکریت پسندی کے خلاف جنگ اور قدرتی آفات نے پاکستانی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے اور موجودہ صورتحال میں مختلف منصوبوں کے لیے بین الاقوامی امداد ناگزیر ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے صدر زرداری سے ملاقات کرنے والے وفد کے سربراہ سینیٹر مائیکل کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستانی صدر نے طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے خاتمے کا وعدہ کیا ہے تاہم اس امریکی سینیٹر کے مطابق انہیں یہ معلوم نہیں کہ ایسی صورتحال میں جب فوج کا اثر و رسوخ ہو صدر زرداری اپنا یہ وعدہ کس طرح پورا کریں گے۔
تجزیہ نگار ایئر مارشل ریٹائرڈ مسعود اختر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت کے پاس قومی سلامتی کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں، اس لیے امریکی رکن کانگریس کا یہ شک درست ہے۔ انہوں نے کہا، ’’واقعی امریکیوں کا یہ شک بڑا جائز ہے کہ صدر کا فوج پر کنٹرول ہے یا نہیں، لیکن فوج پر ان کا کنٹرول اس وجہ سے نہیں ہو سکتا یا ناقص ہو گا کیونکہ ان کے (صدر زرداری) پاس قومی سلامتی کے لوازمات کا تعین نہیں تو اس لیے اگر ان کا فوج پر کنٹرول ہے تو بہت ہی کم ہو گا۔‘‘
امریکی سینیٹر کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستانی صدر سمجھتے ہیں کہ امریکہ موجودہ حالات میں بھی پاکستان کی مالی امداد جاری رکھے گا تاہم میں نے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ حالات میں امداد کی فراہمی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
خیال رہے کہ امریکہ پاکستان پر مسلسل زور دیتا آ رہا ہے کہ وہ شمالی وزیرستان میں موجود حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے ختم کرے کیونکہ ان سے افغانستان میں موجود امریکی فوج کو سخت جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ تاہم پاکستان حقانی نیٹ ورک کی شمالی وزیرستان میں موجودگی کی تردید کرتا آیا ہے۔
تجزیہ نگار مسعود اختر کا کہنا ہے کہ یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے معاشی حالات نے اسے امریکہ کا مرہون منت بنا رکھا ہے انہوں نے کہا، ’’حکومت کے پاس گزشتہ سال کل ایک اعشاریہ دو کھرب روپے تھے جس میں پانچ سو ارب روپے ہم نے قرضوں کی ادائیگی کے لیے دے دیے، باقی دفاع کے لیے قوم اور ملک کو چلانے کے لیے پیسہ چاہیے اور زرداری صاحب اور حکومت کی اپنی قابلیت نہیں ہے وہ یہی کہتے ہیں کہ اگر پیسہ ہو گا تو ترقی کر سکیں گے ، اپنے پارلیمنیٹرینز کو دے سکیں گے تو تبھی یہ ملک چل سکے گا۔ ان کو اور کوئی طریقہ نظر نہیں آتا، وہ وعدے تو کرتے رہتے ہیں مگر اس کو پورا نہیں کر پائیں گے۔‘‘
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستانی حقانی نیٹ ورک کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کرے لیکن اس معاملے پر پاکستان کی فوجی اور سویلین قیادت میں اختلافات کے سبب بظاہر یہ معاملہ فوری طور پر حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: حماد کیانی