امریکہ مشرق وسطیٰ کی ’سرپرستی‘ چھوڑ دے۔ برازیل
21 دسمبر 2010برازیل کے صدر لولا ڈی سلوا نے کہا کہ مشرق وسطی میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک یہ خطہ امریکہ کی ’سر پرستی‘ میں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین ہونے والی بات چیت اور خطے میں امن کے قیام کے لئے دیگر ممالک کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہے۔ برازیل نے ایک طویل عرصے تک مشرق وسطی تنازعے کو حل کرنے میں رضا کارانہ طور پر خدمات پیش کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔
اس ماہ کے آغاز میں برازیل نے فلسطین کو ایک خود مختار ریاست کے طور پر تسیلم کر لیا ہے۔ دوسری جانب برازیل نے ایران پر اس کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے عائد کی جانے والی پابندیوں پر تنقید کی۔ برازیل کے صدر نے کہا کہ اگر امریکہ وہ معاہدہ تسیلم کر لیتا، جو ایران ، ترکی اور برازیل کے مابین طے پایا تھا، تو ان پابندیوں سے بچا بھی جا سکتا تھا۔
مغربی ممالک کو خدشہ ہےکہ ایران جوہری ہتھیار بنانا چاہتا ہے۔ جبکہ ایران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں ترکی اور برازیل نے بھی ایران کے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ توانائی کا حصول ایران کا حق ہے۔ ساتھ ہی سلامتی کونسل میں ایران پر پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے پیش کی جانے والی قرارداد کی مخالفت کرنے والے بھی یہی دو ملک تھے۔
لولا ڈی سلوا کا مزید کہنا تھا کہ رواں سال مئی میں ایران جانے سے پہلے امریکی صدر باراک اوباما نے انہیں ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا تھا، جس میں تحریر تھا کہ ایران کس طرح پابندیوں سے بچ سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدر احمدی نژاد نے تمام شرائط منظور کر لی تھیں، جس کے بعد پابندیاں عائد کرنے کا جواز ہی نہیں بنتا۔
لولا ڈی سلوا گزشتہ آٹھ برسوں سے منصب صدارت پر فائز ہیں اور یکم جنوری 2011ء سے ان کی مدت صدارت ختم ہو رہی ہے۔ برازیل کے آئین کے مطابق کوئی بھی شخص دو مرتبہ سے زیادہ سربراہ مملکت کے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا۔
65 سالہ ڈی سلوا کا شمار برازیل کے مقبول ترین حکمرانوں میں ہوتا ہے۔ مقامی سطح پر کرائے گئے ایک جائزے کے مطابق برازیل میں ان کی مقبولیت 80 فیصد سے زائد ہے۔
رپورٹ : عدنان اسحاق
ادارت : شادی خان سیف