1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمامریکہ

امریکہ: مورمن چرچ میں فائرنگ، کم از کم چار افراد ہلاک

جاوید اختر (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)
29 ستمبر 2025

امریکی ریاست مشی گن کے ایک چھوٹے قصبے گرینڈ بلانک میں اتوار کو ایک چرچ میں فائرنگ کے واقعے میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر چار ہو گئی ہے۔ پولیس نے بتایا کہ حملہ آور، جو کہ 40 سالہ شخص تھا، بھی مارا گیا۔

چرچ آف جیزس کرائسٹ آف لیٹر ڈے سینٹس سے زبردست شعلے اور دھواں بلند ہو رہا ہے۔
شعلے کئی گھنٹوں تک دکھائی دیتے رہے، اس کے بعد جا کر آگ پر قابو پایا گیاتصویر: Julie J/AP Photo/picture alliance

یہ واقعہ 'چرچ آف جیزس کرائسٹ آف لیٹر ڈے سینٹس‘ میں عبادت کی ایک تقریب کے دوران پیش آیا، جس میں سینکڑوں لوگ شریک تھے۔

تحقیقات کاروں کے مطابق، دو افراد گولیوں سے ہلاک ہوئے، جبکہ باقی دو کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

حکام کے مطابق کئی دوسرے افراد زخمی ہوئے ہیں۔ جب کہ حملہ آور، جو کہ 40 سالہ شخص تھا، بھی پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا ہے۔

بعض ذرائع کے مطابق آٹھ افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔

چرچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''دنیا بھر سے موصول ہونے والی دعاؤں اور ہمدردی کے اظہار پر بے حد شکر گزار ہیں۔‘‘

ایمرجنسی ریسکیو اہلکار فائرنگ اور آگ لگنے کے بعد "چرچ آف جیزس کرائسٹ آف لیٹر ڈے سینٹس" کے باہر جائے وقوعہ پر کام کر رہے ہیںتصویر: Lukas Katilius/The Flint Journal/AP Photo/picture alliance

مورمن چرچ میں فائرنگ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

یہ واقعہ گرینڈ بلانک میں 'چرچ آف جیزس کرائسٹ آف لیٹر ڈے سینٹس‘ میں پیش آیا جو ڈیٹرائٹ کے شمال میں تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

پولیس نے بتایا کہ حملہ آور نے پہلے اپنی گاڑی چرچ کے مرکزی دروازے سے ٹکرا دی اور پھر ایک خودکار رائفل سے فائرنگ شروع کر دی، اس کے بعد اس نے چرچ کو آگ بھی لگا دی۔ اس وقت چرچ میں سینکڑوں افراد موجود تھے۔

گرینڈ بلانک پولیس چیف ولیم رینی نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ واقعے کے آٹھ منٹ بعد پولیس نے چرچ کے پارکنگ لاٹ میں حملہ آور کو ہلاک کر دیا۔

پولیس نے حملہ آور کی شناخت 40 سالہ تھامس جیکب سینفورڈ کے طور پر کی ہے، جو مقامی رہائشی اور فوج کا سابق اہلکار تھا۔ قریبی علاقے برٹن میں مشتبہ شخص کے گھر کے باہر بڑی تعداد میں پولیس اہلکار موجود تھے۔

رینی نے کہا کہ تحقیقات کے دوران حملہ آور کے گھر اور فون ریکارڈز کی جانچ کی جائے گی تاکہ محرکات کا پتا چل سکے۔

حکام کے مطابق حملہ آور، جو کہ 40 سالہ شخص تھا، بھی پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا ہےتصویر: Lukas Katilius/The Flint Journal/AP Photo/picture alliance

امریکی رہنماؤں کا ردعمل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واقعے کو 'ہولناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ 'امریکہ میں عیسائیوں پر ایک اور حملہ‘ ہے۔ انہوں نے اسے ملک میں پھیلتی ہوئی'تشدد کی وبا‘ کا حصہ قرار دیا اور زور دیا کہ 'اس وبا‘ کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیے۔ 

انہوں نے اپنے سوشل پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر لکھا، ''ملزم ہلاک ہو چکا ہے، لیکن ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے۔ یہ امریکہ میں مسیحیوں پر ایک اور نشانہ بنایا گیا حملہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘

امریکی اٹارنی جنرل پم بونڈی نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ انہیں چرچ میں ''خوفناک فائرنگ اور آگ‘‘ کے بارے میں بریفنگ دی گئی ہے۔

بونڈی نے کہا، ''عبادت گاہ میں اس طرح کا تشدد دل توڑ دینے والا اور خوفناک ہے۔ براہ کرم اس سانحے کے متاثرین کے لیے دعا میں میرا ساتھ دیں۔‘‘

مشی گن کی گورنر گریچن وٹمر نے بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ''کہیں بھی تشدد ناقابلِ قبول ہے، خاص طور پر عبادت گاہ میں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس صورتحال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واقعے کو 'ہولناک‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ 'امریکہ میں عیسائیوں پر ایک اور حملہ‘ ہےتصویر: Lukas Katilius/The Flint Journal/AP Photo/picture alliance

پہلے بھی ایسے واقعات ہو چکے ہیں

امریکہ میں اس واقعے سے قبل بھی کئی بڑے مسلح حملے سامنے آ چکے ہیں، جن میں منی سوٹا کے ایک کیتھولک چرچ اور اسکول پر فائرنگ شامل ہے جہاں دو بچے ہلاک ہوئے تھے۔ حالیہ پرتشدد واقعات نے امریکی معاشرے میں گہری سیاسی تقسیم کو مزید بڑھا دیا ہے۔

ایف بی آئی نے اس واقعے کی تحقیقات اپنے ہاتھ میں لے لی ہیں اور اسے'ٹارگٹڈ وائلنس‘ یعنی منصوبہ بند تشدد قرار دیا ہے۔

چرچ آف جیزس کرائسٹ آف لیٹر ڈے سینٹس، جس کے سربراہ ایک روز قبل 101 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں