امریکہ میں ’ریاستی قرضوں کی حد پر سیاست‘ تباہ کن ہوگی
3 جنوری 2011بہت سے ری پبلکن ارکان کا مطالبہ ہے کہ 1.3 ٹریلین ڈالر کے بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے اخراجات میں کمی لائی جائے جبکہ کئی ایک کا کہنا ہے کہ اگر اوباما حکومت اخراجات میں کمی پر رضامند نہیں ہوتی، تو وہ ریاستی قرضے حاصل کرنے کی اب تک کی زیادہ سے زیادہ حد میں اضافے کی اجازت نہیں دیں گے۔
وائٹ ہاؤس کے اقتصادی امور کے مشیر آسٹن گُولزبی نے ری پبلکن ارکان کانگریس پر الزام لگایا ہے کہ وہ معاشی حوالے سے امریکہ کے معتبر ہونے کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ امریکی ٹی وی چینل ABC نیوز کے ایک پروگرام میں گولزبی کا کہنا تھا، ’’قرضوں کی حد کا معاملہ کوئی کھیل نہیں ہے۔ اگر معاملے کو نشانہ یا مسئلہ بنایا جاتا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کر رہے ہیں، اور یہ بات امریکی تاریخ میں اب تک کبھی نہیں ہوئی۔‘‘
صدر اوباما کے اس مشیر نے ایسی کسی کوشش کو انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایسی کسی بھی کوشش کے امریکی معیشت پر اثرات انتہائی تباہ کن ہوں گے، اس سے بھی کہیں زیادہ، جو ہم نے 2008ء کے اقتصادی بحران کی شکل میں دیکھے۔‘‘
امریکی محکمہ خزانہ کے اندازوں کے مطابق قرض کی 14.3 ٹریلین ڈالر کی موجودہ حد رواں برس کے پہلی یا دوسری سہ ماہی تک ہی پوری ہو جائے گی۔
دوسری طرف اپوزیشن کی ری پبلکن پارٹی کی ایک خاتون میشیل باخمین نے CBS ٹیلی وژن کے پروگرام ’فیس دی نیشن‘ میں کہا کہ ری پبلکنز کا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ وہ حکومت کو معطل کر کے رکھ دیں، تاہم وہ یہ ضرور چاہتے ہیں کہ اخراجات میں کمی لائی جائے تاکہ ریاستی قرض کی حد میں مسلسل اضافے کی ضرورت نہ پڑے۔ انہوں نے کہا، ’’اس موقع پر میں اس بات کی حامی نہیں ہوں کہ حکومتی قرضوں کی حد میں اضافہ کیا جائے۔‘‘
جنوبی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن پارٹی کے ایک اور رکن لنڈسے گراہیم کا کہنا ہے، ’’اگر قرض حاصل کرنے کی حد میں اضافہ نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ سرکاری مالیاتی بانڈز اور دیگر ذمہ داریوں کے معاملے پر امریکہ کی نادہندگی کی صورت میں نکلے گا۔‘‘ امریکی ٹی وی CBS کے پروگرام ’مِیٹ دی پریس‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے لنڈسے گراہیم کا مزید کہنا تھا، ’’یہ صورتحال مجموعی طور پر امریکہ کے لیے اچھی نہیں ہوگی، تاہم یہی وہ موقع بھی ہے کہ امریکی حکومت کو چاہیے کہ اخراجات کے حوالے سے اپنا طریقہء کار تبدیل کرے۔‘‘
لنڈسے گراہیم نے اس موقع پر مزید کہا کہ وہ اس وقت تک قرضوں کی حد بڑھانے کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے، جب تک کہ اخراجات میں کمی 2008ء کی سطح تک نہیں لائی جاتی۔ لنڈسے کے مطابق، ’’گزشتہ انتخابات تبدیلی کے حوالے سے تھے، ایک ایسی تبدیلی جو ہمیں یونان جیسا ملک بننے سے بچاسکے۔‘‘
دوسری طرف وائٹ ہاؤس کے مشیر آسٹن گُولزبی نے کہا ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما فروری میں پیش کیے جانے والے ملکی بجٹ میں اخراجات میں کمی لانے کے حوالے سے مشکل فیصلے کرنے پر تیار ہیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اخراجات میں اس کمی سے ملکی تعمیر وترقی کے لیے ضروری شعبوں کو متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا، جن میں تعلیم کا شعبہ بھی شامل ہے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: مقبول ملک