امریکہ میں قرآن نذر آتش کرنے کا منصوبہ قابل مذمت، جنرل پیٹریاس
7 ستمبر 2010ریاست فلوریڈا کے ایک کلیسا کے اعلان کے مطابق گیارہ ستمبر کو قرآن کے نسخے نذر آتش کرنے کے پروگرام پر ضرور عمل کیا جائے گا۔ ’ڈوو ورلڈ آؤٹ ریچ سینٹر‘ کے پادری ٹیری جونز نے کہا ہے کہ ان کا چرچ گیارہ سمتبر 2001 ء کے دہشت گردانہ حملوں کے نو برس پورے ہونے پر ان حملوں کی یاد اپنے ہی انداز میں تازہ کرنا چاہتا ہے۔
اس بہت متنازعہ بن جانے والے منصوبے پر اپنے ردعمل میں افغانستان میں امریکی فوجی کمانڈر نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ میں قرآن نذز آتش کئے گئے تو اس سے افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی زندگیاں اور بھی شدید خطرات کا شکار ہو جائیں گی۔
امریکی کمانڈر کی جانب سے یہ بیان افغان دارالحکومت کابل میں ہزاروں افراد کی جانب سے چرچ کے اس منصوبے کے خلاف مظاہرہ کے بعد سامنے آیا۔ اس احتجاج کے دوران مظاہرین، جن میں زیادہ ترایک مذہبی اسکول کے طلبہ تھے، امریکہ کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے۔
افغانستان میں تعینات نیٹو دستوں کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ قرآن نذر آتش کرنے کے مجوزہ منصوبے سے صدر باراک اوباما کی دنیا بھر کی مسلم آبادی کو ساتھ ملانے کی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ ساتھ ہی افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کے خلاف نفرت میں بھی اضافہ ہو گا اور تعمیر نو کے زیر عمل منصوبوں کے حوالے سے خطرات بھی بڑھ جائیں گے۔
نیٹو کمانڈر کے بقول اگر فلوریڈا میں قرآن کے نسخوں کو نذز آتش کیا جاتا ہے تو طالبان اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر اپنے لئے ہمدردیاں جمع کر سکتے ہیں اور وہ اسی طرح کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بات صرف افغانستان کی ہی نہیں ہے بلکہ امریکہ دنیا بھر میں مسلم برادری کے ساتھ مل کرکام کر رہا ہے۔
ریاست فلوریڈا کے اس چرچ کی ویب سائٹ سے یہ پیغام شائع کیا گیا ہے کہ یہ کلیسا اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر بے نقاب کرنا چاہتا ہے، جو تشدد کا درس دیتا ہے۔ کابل میں امریکی سفارت خانے کے مطابق واشنگٹن حکومت کسی بھی اسلام مخالف عمل کی تائید نہیں کرتی اور اسے قرآن کے نسخے نذر آتش کرنے کے منصوبے پر تشویش ہے۔
دوسری جانب تقریباً ایک ہزار انڈونیشی مسلمانوں نے جکارتہ میں امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر فلوریڈا کے اس چرچ نے اپنے منصوبے کو عملی شکل دی تو اس کا جواب جہاد کی صورت میں دیا جائےگا۔ اس مظاہرے میں شریک افراد کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت اور مسیحی رہنماؤں کو اس اشتعال انگیز منصوبے کو رکوانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اسی حوالے سے ایرانی وزارت خارجہ نے بھی اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مغربی ممالک کو آزادی اظہار کے نام پر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا سلسلہ بند کرنا چاہیے۔ مصر کی جامعہ الازہر سمیت کئی سرکردہ مسلم اداروں اور گروپوں نے بھی قرآن کے نسخے نذر آتش کرنے کے اس متنازعہ منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت: عاطف بلوچ