1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ میں وسط مدتی انتخابات، اوباما کا امتحان

2 نومبر 2010

امریکی سیاسی جماعت ری پبلکن پارٹی کو یقین ہے کہ منگل کو ہونےوالے الیکشن میں عوام کی بڑی تعداد ان کے حق میں ووٹ ڈالے گی۔ ایسا ہوا تو اوباما کا اس ہفتے سے شروع ہونے والا ایشیائی ملکوں کا دورہ اطمینان کا باعث نہیں ہو گا۔

تصویر: AP

منگل کے انتخابات میں کانگریس کے ایوان نمائندگان (House of Representatives) کی تمام یعنی 435 نشستوں کے لئے پولنگ ہو گی۔ اس کے علاوہ سو رکنی سینیٹ کی 37 سیٹوں پر بھی انتخابات ہو ں گے۔ ان کے ساتھ ساتھ مختلف ریاستوں کے 37 گورنروں کا الیکشن بھی منگل کو ہوگا۔ اس تمام انتخابی عمل میں مقامی حکومتوں کا انتخاب بھی ہو رہا ہے۔

وسط مدتی الیکشن سے قبل امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کو برتری حاصل ہے۔ ایسے رائے عامہ کے اندازے سامنے آئے ہیں کہ الیکشن کے بعد اوباما کو شاید مشکلات کا سامنا ہو کیونکہ ری پبلکن امیدواروں کو ووٹروں کا اعتماد مل سکتا ہے، جو بظاہر اوباما کی مقبولیت کے لئے اپ سیٹ ہو گا۔ ان جائزوں کے مطابق ڈیموکریٹک پارٹی کو بھاری نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اوباما کی مقبولیت کا گراف بھی روبہ زوال ہے۔ اس الیکشن میں سب سے بڑا مدعا بےروزگاری کو بیان کیا جا رہا ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نتائج کے بعد امریکی کانگریس کے دو ایوانوں میں سے ایک میں اپوزیشن جماعت کو برتری حاصل ہو سکتی ہے، جو اگلے ہفتوں میں قانون سازی میں مشکلات کا باعث ہو گی۔ ایسے اندازے لگائے گئے ہیں کہ امریکی ایوان نمائندگان میں برتری بڑی اپوزیشن جماعت ری پبلکن کے ہاتھ آ جائے گی اور امکانی طور پر ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کی رخصت یقینی محسوس کی جا رہی ہے۔ ری پبلکن پارٹی کوکم از کم 39 سیٹیں زیادہ مل سکتی ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے حوالے سے یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکی سینیٹ میں برتری بدستور ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھ میں رہے گی۔

انتخابات کے ساتھ ساتھ مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہےتصویر: AP

رائے عامہ کے جائزوں کو مرتب کرنے والے ادارے گیلپ کے مطابق 55 فیصد شہریوں کا رجحان ری پبلکن پارٹی کو ووٹ دینے کی جانب ہے۔ چالیس فیصد ایک بار پھر ڈیموکریٹس امیدواروں کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہے۔ خاموش ووٹرز بھی ہیں، جو آخری وقت پر ہوا کا رخ کسی حد تک بدل سکتے ہیں۔

عوامی سطح کی ایک جماعت ‘‘ ٹی پارٹی ’’ کو ان انتخابات میں مختلف سیاسی حلقوں میں اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ اس پارٹی نے حکمران جماعت کی کئی پالیسیوں کے ساتھ سخت ٹکر لے رکھی ہے اور اس کا فائدہ بڑی سیاسی جماعت ری پبلکن کو پہنچا ہے۔ ٹی پارٹی نے بہت ہی نچلے لیول پر ووٹرز کو حکومتی پالیسیوں کی بابت آگاہ کرنے کی مہم چلا رکھی ہے۔

وسط مدتی الیکشن میں حکمران جماعت ڈیموکریٹ کو اندازوں سے کم ووٹ ملے تو کئی اور ترجیحی منصوبوں کے ساتھ ساتھ اوباما انتظامیہ کے ماحولیات سے متعلق جامع تبدیلی کے مسودہ قانون کو کاری ضرب پہنچے گی۔ صدر اوباما سبز مکانی گیسوں کے اخراج کی مد میں کٹوتیوں کے متمنی ہیں۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں