امریکہ میں کورونا سے متعلق ہنگامی اقدام جلد ہی ختم ہوں گے
31 جنوری 2023
امریکی صدر کووڈ انیس سے متعلق نافذ ہنگامی اقدامات مئی تک اٹھانے کا اعلان کر سکتے ہیں اور تقریباً تین برس بعد ان کا خاتمہ ہو جائے گا۔ بعض اقدامات پہلے ہی ختم کیے جا چکے ہیں اور اب اس کی تنظیم نو کی جائے گی۔
اشتہار
امریکی صدر جو بائیڈن نے 30 جنوری پیر کے روز امریکی کانگریس کو مطلع کیا کہ وہ کووڈ انیس کی وبا سے نمٹنے کے لیے نافذموجودہ قومی سطح کے دو ہنگامی اقدامات رواں برس 11 مئی تک ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تقریبا تین برس قبل اس مہلک وبا سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کا نفاذ کیا گیا تھا۔
ان اقدامات کے تحت امریکی انتظامیہ کورونا وائرس کو اب ایک مقامی خطرے کے طور لے گی اور اس سے نمٹنے کے لیے نئے ضوابط مرتب کیے جائیں گے۔ سن 2020 میں کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی ایمرجنسی اور پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کے تحت ہنگامی اقدامات نافذ کیے تھے۔
صدر ٹرمپ کی انتظامیہ میں صحت اور انسانی خدمات کے سکریٹری الیکس آزر نے پہلی بار 31 جنوری 2020 کو صحت عامہ کی ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے بھی ان ہنگامی اقدامات میں توسیع کی۔ تاہم ان میں سے بعض ہنگامی اقدامات پہلے ہی ختم کیے جا چکے ہیں۔
تازہ اقدامات کے اعلان سے ویکسین اور اس کے علاج کو اب وفاقی حکومت کے براہ راست انتظام سے بھی الگ کر دیا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس میں آفس آف مینجمنٹ اینڈ بجٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''خاتمے کا یہ عمل انتظامیہ کے سابقہ وعدوں کے مطابق ہی ہو گا، جو صحت عامہ کی ایمرجنسی کو ختم کرنے سے پہلے کم سے کم 60 دن کے نوٹس پر مبنی ہو گا۔''
جب یہ ہنگامی اقدامات ختم ہو جائیں گے، تو حکومت ویکسین، بعض ٹیسٹ اور علاج کے لیے رقم کی ادائیگی بند کر دے گی۔ اس کے بجائے اب اس وبا کے علاج کو بھی انشورنس اور صحت کے دیگر منصوبوں سے مربوط کر دیا جائے گا۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن اس بل کو بھی ویٹو کرنے کا ارادہ رکھتے ہے، جس میں وفاقی پروگراموں میں صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والے افراد کے لیے، کووڈانیس کی ویکسین کو لازمی نہیں قرار دیا گیا ہے۔
اشتہار
حکومتی کارکردگی کی تحقیقات کا ارادہ
اسی ہفتے ریپبلکن نے یہ اعلان کیا کہ وہ کووڈ انیس کی وبا سے متعلق حکومت کا جو رد عمل رہا ہے، اس کی تحقیقات شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام سے متعلق اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق، سن 2020 سے اب تک امریکہ میں کووڈ انیس کی وبا سے تقریبا ًایک کروڑ دس لاکھ سے بھی زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
چونکہ نئے منصوبوں کے تحت امریکی حکومت ویکسین خریدنا بند کر دے گی اس لیے اس کی قیمتوں میں اضافے کی بھی توقع ہے۔ دوا ساز کمپنی فائزر کا کہنا ہے کہ اس کی قیمت فی خوراک تقریباً 130 ڈالر تک جا سکتی ہے۔
فون یا کمپیوٹر کے ذریعے صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے کے انتظامات کو مزید دو برسوں کے لیے بڑھا دیا گیا۔ تاہم اب گھر پر مفت کووڈ ٹیسٹ کی سہولت ختم ہوجائے گی۔
بائیڈن انتظامیہ نے ہنگامی اقدامات کو پہلے ہی ختم کرنے پر غور کیا تھا، تاہم موسم سرما میں اضافے کے خدشات کی وجہ سے اسے روک دیا گیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگلے تین ماہ کووڈ سے متعلق حکومت کی حکمت عملی کو عام طریقوں کے مطابق منتقل کرنے کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔
ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)
کووڈ کے دوران والدین کو کھو دینے والے بچے
امریکا میں کووڈ انیس کی وبا سے ہونے والی ہلاکتیں دس لاکھ سے بڑھ گئی ہیں۔ اس وبا کے دوران ہزاروں بچے اپنے والدین یا کم از کم ماں باپ میں سے کسی ایک سے محروم ہو گئے ہیں۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’افسوس ناک ترین واقعہ‘
چودہ سالہ جولیئس گارزا اپنے والد کے دکھ کو کمپیوٹر گیمز کھیل کر بھلانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے والد دسمبر سن 2020 میں کووڈ انیس کی وجہ سے دم توڑ گئے تھے۔ وہ اور اس کا بھائی اس دن کو یاد کرتے ہیں جب سن 2015 میں ان دونوں کو مارگریٹ اور ڈیوڈ نے اپنی کفالت میں لیا تھا۔ جولیئس کے مطابق ڈیوڈ کی موت اس کی زندگی کا انتہائی دکھ بھرا وقت تھا اور شاید وہ اس کو کبھی بھی بھول نہیں سکے گی۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
والد کی یاد میں
جولیئس گارزا کی عمر چودہ اور ان کا بھائی عیدان گارزا کی عمر بارہ سال ہے۔ وہ اپنے والد کو ہر مہینے کی تیس تاریخ کو خاص طور پر اپنی دعا میں یاد کرتے ہیں۔ مارگریٹ کے شوہر مرحوم ڈیوڈ کی سالگرہ تیس اپریل کو ہوتی ہے اور وہ کووڈ انیس کی وجہ سے تیس دسمبر سن 2020 کو موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
صورت حال سمجھنے کی کوشش
مارگریٹ گارزا اور ان کا بیٹا جولیئس تصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ڈیوڈ اور ان کے بھائی کے اصل والد کو سوتیلی بیٹی کا جنسی استحصال کرنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ڈیوڈ ان کے کفیل بن گئے تھے۔ اب جولیئس اس کوشش میں ہے کہ وہ ڈیوڈ کی موت کو سمجھ پائے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ناقابلِ تلافی نقصان
جوسٹس میکگوون تیرہ سال کی ہیں اور وہ بھی اپنے والد کو کووڈ انیس کی وبا میں کھو چکی ہیں۔ جوسٹس کے والد مئی سن 2020 میں بیماری سے سنبھل نہیں سکے تھے۔ وہ اپنے والد کی سالگرہ کے دن سیڑھیوں میں بیٹھ کر انہیں یاد کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا میں ایک ملین افراد ہلاک ہوئے یعنی کھانے کی میز پر ایک ملین خالی کرسیاں، یہ ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’وہ وہی کرتی ہے جو والد کیا کرتے تھے‘
جوسٹس کی والدہ ڈاکٹر سینڈرا میکگووں واٹس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے معمولات کو سنبھالے ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے والد کے انداز کو اپنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ گزشتہ برس گھر میں اُگی جھاڑیوں کو اس نے باپ کا ٹرمر اٹھا کر کاٹا تھا۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ایک مشترکہ روایت
جوسٹس میکگوون گھر میں اوون میں سے بسکٹوں کو باہر نکال رہی ہے، ایسا وہ اپنے مرحوم باپ کے سامنے کیا کرتی تھی۔ زندگی کئی بچوں کے لیے تبدیل ہو کر رہ گئی ہے لیکن وہ جذباتی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
ہزاروں بچوں کے والدین میں سے ایک اب زندہ نہیں
ابھی تک ان امریکی بچوں کی فلاح و بہبود کسی حکومتی پروگرام میں شامل نہیں، جن کے والدین میں سے ایک وبا کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔ محققین کے مطابق امریکا میں دو لاکھ تیرہ ہزار سے زائد ایسے بچے ہیں جن کے والدین میں سے ایک کووڈ انیس کی وجہ سے دنیا سے چلے گئے ہیں
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
بادلوں کو چھونے جیسا
عیدان گارزا اپنے باپ کی پسندیدہ کرسی پر بیٹھ کر ان کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ڈیوڈ ایک سیدھے اصولوں والا انسان تھا۔ عیدان کے مطابق ڈیوڈ ایک پرجوش اور نرم دل انسان تھے اور جب بھی وہ ان کے گلے لگتا تھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ بادلوں کو چھو رہا ہے۔
تصویر: Callaghan O'Hare/Reuters
’ہمارا حالات دوسروں کی طرح نہیں ہیں‘
عیدان، جولیئس اور مارگریٹ ڈیوڈ کی تصویر کی تصویر کے سامنے اکھٹے ہیں۔ یہاں وہ برتن بھی رکھا ہوا ہے، جس میں ڈیوڈ کی راکھ ہے۔ مارگریٹ اپنے شوہر کی موت کے بعد اپنے بچوں کی نفسیاتی کاؤنسلنگ بھی کروا چکی ہے۔ عیدان اور جولیئس کا کہنا ہے کہ ان کا نارمل دوسرے خاندانوں جیسا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اپنا ایک عزیز اس وبا میں کھو چکے ہیں۔